پتوجڑی کا منافع بخش کاروبار چین نے ہائی جیک کرلیا

سید نبیل اختر
اوجھڑی اور پتوجڑی سے پاکستان کو سالانہ 15 ارب روپے کا زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ حکومتی سطح پر اس صنعت پر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے چینی کمپنیوں نے مارکیٹ پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ بکروں، بھیڑوں اور دنبوں کی اوجھڑی سے ہینکس کی تیاری اور برآمد کرنے والے کراچی میں 4 بڑے کارخانے ہیں، جو یورپ کے تمام ممالک میں مال سپلائی کر رہے ہیں۔ پتوجڑی کی ڈیمانڈ بڑھنے پر 6 چینی کمپنیوں نے ابراہیم حیدری اور کورنگی میں کارخانے قائم کر لئے ہیں۔ ملک بھر سے پتوجڑی جمع کرنے کے بعد چین برآمد کر کے سالانہ 10 ارب روپے منافع کما رہا ہے۔ پتوجڑی کے کام سے وابستہ پاکستانی کارخانے دار رومانیہ سے خام مال منگوا کر کراچی میں پروسس کے بعد چین کو ری ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ بیشتر پاکستانی تاجروں کو غیر ملکی کمپنیوں سے ادائیگیاں نہ ہونے کے سبب صنعت بیٹھنے لگی۔ رومانیہ، جرمن، فرانس اور اٹلی میں پاکستانی تاجروں کے کروڑوں روپے پھنسے ہوئے ہیں۔
اوجھڑی سے متعلق میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں تحقیقات شروع کیں تو اہم انکشافات سامنے آئے۔ سوشل میڈیا اور نیوز چینل پر چلنے والی ویڈیو میں درجنوں کی تعداد میں لوگ لیاری ندی کے پانی سے اوجھڑی کی دھلائی میں مصروف نظر آئے۔ ان اوجھڑیوں کی صفائی کو حفظانِ صحت کے اصولوں کے بر خلاف قرار دیا گیا۔ ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ جن اوجھڑیوں کی دھلائی کی جا رہی ہے، وہ دراصل پتوجڑی ہیں، جو گائے کے پیٹ کے ساتھ ایک بٹوے (پرس) کی شکل میں ہوتی ہے۔ اس میں بھی پیٹ کی طرح گوبر اور غلاظت بھری ہوتی ہے، جس کی صفائی کے بعد اسے پتوجڑی کارخانوں کے مالکان کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ عیدالاضحیٰ کے تینوں دنوں میں دیکھا جاتا ہے کہ کم عمر بچے، بزرگ اور بعض خواتین ہاتھوں میں چھریاں تھامے گائے سے نکلنے والے پیٹ کی طرف بھاگتے ہیں، تاکہ اس سے چربی حاصل کر کے اسے فروخت کر سکیں۔ لیکن در حقیقت انہیں چربی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ پتوجڑی کو پیٹ سے الگ کر کے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ انہیں ایک پتوجڑی کے 150 روپے مل سکیں۔
’’امت‘‘ کو پتوجڑی کے کام سے منسلک ایک تاجر محمد شاکر نے بتایا کہ پتوجڑی کے لئے عید قرباں سے قبل ہی تیاری کر لی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں گداگر یا عام بے روزگار بڑے پیمانے پر گائے کے پیٹ سے پتوجڑی نکال کر اسے صاف کرنے کے بعد کارخانے داروں کو پہنچانے پر مامور ہو جاتے ہیں، جس پر انہیں فی کس 150 روپے اور زیادہ سے زیادہ 200 روپے کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ دس برسوں چل رہا ہے اور اس میں ہر برس اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شاکر کے مطابق پتوجڑی کی صفائی کیلئے ندی کا پانی کارآمد اس لئے قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ پانی تیزابی ہوتا ہے اور گوبر کی دھلائی اس کے ذریعے ٹھیک طرح ہو پاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ندی کے پانی سے ابتدائی دھلائی کے بعد نمک لگا کر پتوجڑی فیکٹری یا کارخانے میں لانے کے بعد اسے مزید 5 بار دھویا جاتا ہے۔ اس عمل کو کلیننگ کہتے ہیں۔ نمک کے پانی سے مستقل دھلائی کی صورت میں پتوجڑی مکمل طور پر صاف ہو جاتی ہے۔ یہ حلال غذا ہے، جو پاکستان میں بھی کھانے میں استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم اس کے اصل طلب گار چینی باشندے ہیں، جو پروسس ہونے کے بعد پتوجڑی کی اچھی قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا کہ پتوجڑی کے پاکستانی تاجر نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی وجہ سے کراچی میں 6 چینی کمپنیاں اس کاروبار سے منسلک ہو گئی ہیں۔ یہ چینی کمپنیاں پورے ملک سے مال لا کر کراچی کی فیکٹریوں میں پروسس کرتی ہیں اور پھر انہیں چین بھجوا دیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ حکومت پاکستان نے پتوجڑی کی چینی ایکسپورٹ پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے پاکستانی اور چینی کمپنیاں پتوجڑیوں کے کنسائمنٹس براستہ ویتنام اور ہانگ کانگ بھجواتے ہیں، اور پھر وہاں سے چین پہنچایا جا تا ہے۔ اس سلسلے میں مزید تحقیقات پر پتہ چلا کہ ایک پتوجڑی 6 یورو سے 10 یورو میں فروخت ہوتی ہے، جو کہ قریباً 12 سو روپے کے حساب سے پاکستان سے فروخت کی جاتی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ پتوجڑی کے لئے کورنگی میں بڑے بڑے کولڈ اسٹوریج بنائے گئے ہیں، جہاں انہیں محفوظ کیا جاتا ہے۔ پتوجڑی کے تاجر شاکر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گائے کے پیٹ سے نکلنے کے دو گھنٹے کے بعد پتوجڑی کو صاف نہ کیا جائے تو وہ خراب ہونے لگتی ہے اور اس کے گوشت پر لگی کھال ہاتھوں سے اکھڑنے لگتی ہے، ایسی پتوجڑی کو بی اور سی کیٹگری میں شمار کیا جاتا ہے۔ بی اور سی کیٹگری کا مال 100 سے 250 روپے تک فروخت کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے عدم توجہی کے باعث اب اس مارکیٹ پر چینی کمپنیاں تیزی سے کام کر رہی ہیں، جس کے پاس پاکستانی ملازم ہیں۔ انہوں نے پاکستانی ملازمین سے کام لینے کے لئے ترجمان بھی ہائر کر رکھے ہیں، جو چینی تاجروں اور پاکستانی ملازمین کے درمیان پل کا کام کرتے ہیں۔ تاجر شاکر کا کہنا تھا کہ حکومت ایکسپورٹ پر سے پابندی اٹھائے تو پاکستانی تاجروں کو اور خود حکومت کو فائدہ پہنچے گا۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ کراچی کے ایک تاجر جن کا کارخانہ ایکسپورٹ پروسینگ زون میں ہے، نے رومانیہ سے پتوجڑی درآمد کرنا شروع کر دی ہے۔ یہ پتوجڑی خام حالت میں ہوتی ہے۔ وہاں سے محض نمک لگی پتوجڑی کراچی میں پروسس کی جاتی ہے اور پھر اسے فروخت کرنے کے لئے درجہ بندی کرنے کے بعد پیکنگ کے بعد ویتنام اور ہانگ کانگ بھیج دی جاتی ہے۔
’’امت‘‘ کو اوجھڑی کی صنعت سے متعلق معلوم ہوا کہ کراچی میں بکرے، دنبوں اور بھیڑوں کی اوجھڑیوں کو ہینکس میں تبدیل کرنے کے اب محض 4 کارخانے رہ گئے ہیں۔ جبکہ ملک بھر میں اس کاروبار سے منسلک 10 کارخانے ہیں، جو اس کاروبار سے سالانہ 5 ارب روپے زر مبادلہ پاکستان لا رہے ہیں۔
’’امت‘‘ نے اوجھڑی سے ہینکس بنانے والے تاجروں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ عالمی منڈی میں نرخ کم ہونے پر ہینکس (انتڑیوں) کے کاروبار سے وابستہ ایکسپورٹرز کے 3 ارب روپے پھنسے ہوئے ہیں۔ فی ہینکس 13 کے بجائے ساڑھے 3 یورو میں فروخت ہو رہا ہے۔ ایک درجن سے زائد درآمد کنندگان نے نرخ بڑھنے کی امید پر مال اسٹاک کر لیا ہے۔ حکومتی عدم توجہ کے باعث صنعت سے وابستہ کئی افراد نے کاروبار بھی تبدیل کر لیا۔ ملک بھر میں محض 53 درآمد کنندگان اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ اس سلسلے میں مزید تحقیقات کی گئیں تو پتا چلا کہ پاکستان میں بکرے، دنبے اور بھیڑ کے رودے (انتڑیوں) سے ہینکس تیار کئے جاتے ہیں۔ ماضی میں 13 یورو میں بکنے والا ہینکس اب محض ساڑھے 3 یورو میں بک رہا ہے، جس کے باعث اس کاروبار سے وابستہ ایکسپورٹرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
’’امت‘‘ نے ہینکس کے بڑے تاجر شاہین انٹر پرائزز کے مالک محمد ریاض سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ہینکس تیار کرنے میں بہت محنت اور وقت لگتا ہے۔ بکرے، دنبے اور بھیڑ کے رودے (انتڑیوں) کو سب سے پہلے سلاٹر ہائوس لے جایا جاتا ہے۔ وہاں رودے کو الگ کرکے رکھا جاتا ہے، جس کے بعد فیکٹری پہنچایا جاتا ہے۔ فیکٹری میں لانے کے بعد اس کی صفائی ستھرائی کی جاتی ہے۔ صفائی ستھرائی کے لئے اعلیٰ کوالٹی کا نمک استعمال ہوتا ہے۔ رودے کو نمک سے اچھی طرح صاف کیا جاتا ہے۔ صفائی کے وقت خیال رکھا جاتا ہے کہ نمک کے ساتھ پتھر یا کنکر شامل نہ ہو جائے۔ اگر پتھر یا کنکر شامل ہو جاتا ہے تو اس سے رودا خراب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہینکس میں سوراخ ہو جاتے ہیں اور اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ صفائی ستھرائی کے بعد اس کی سلیکشن کی جاتی ہے، کیونکہ رودے سے 26 قسم کے ہینکس تیار ہوتے ہیں، جو مختلف کوالٹی اور سائز کے ہوتے ہیں۔ اس پورے مرحلے کے بعد ہینکس کولڈ اسٹوریج کے ذریعے اسٹاک کر دیا جاتا ہے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں کولڈ اسٹوریج کے لئے ماہانہ 50 ہزار روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ ہینکس کی لمبائی 90 میٹر تک ہوتی ہے، جس سے کیسنگ تیار کی جاتی ہے۔ فی کیسنگ 60 سے 65 روپے میں ایکسپورٹ ہوتی ہے‘‘۔ محمد ریاض کا مزید کہنا تھا کہ 10 سے 15 سال قبل کاروبار بہت بہترین تھا۔ تاہم حکومتی سطح پر توجہ نہ ہونے کے سبب پاکستانی ایکسپورٹرز کا رودے (ہینکس) کا کاروبار متاثر ہونے لگا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں 2 فیصد کھپت رہ گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’کراچی میں عام طور پر 3 لاکھ رودے اسٹاک کئے جاتے ہیں۔ ہم نے ایک لاکھ ہینکس اسٹاک کرنا ہیں، جبکہ ملک بھر سے 3 ارب روپے کا مال یورپ اور جاپان ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ 2 سال سے ایکسپورٹ میں کمی آئی ہے، جس کی ایک وجہ بیرون ممالک سے رودے کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں افغان، آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کے مال کی ڈیمانڈ بھی بڑھ گئی ہے، کیونکہ وہاں کے بکرے اور بھیڑ زیادہ طاقتور اور بڑے ہوتے ہیں اور بین الاقوامی مارکیٹ کریڈٹ پر کام کر رہی ہیں، جس کی وجہ پاکستانی مال کی ڈیمانڈ کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ شاہین انٹر پرائزز بلجیم کے شہر برسلز سے رجسٹرڈ ہے۔ رودے کا کاروبار کرنے کیلئے ہیلتھ سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہے، جبکہ فی شپمنٹ 70 ہزار روپے ٹیسٹ کرانے کے لئے دینا پڑتے ہیں۔ ہم پی سی ایس آئی آر سے ٹیسٹ کراتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ سال میں ایک مرتبہ کرانا پڑتا ہے۔ مال ایکسپورٹ ہونے کے بعد بھی کئی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ بیرون ممالک کی جانب سے پیمنٹ بینک کے ذریعے کی جاتی ہے اور بینک کے بغیر مال ایکسپورٹ بھی نہیں ہوتا۔ ہم ایک ماہ کے ادھار پر بین الاقوامی ممالک میں مال ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ مقامی بینک کی جانب سے ہمارے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا جاتا۔ بیرون ممالک کے بینک سے اگر وقت پر رقم کی ٹرانزیکشن نہ ہو تو ایک ماہ گزرنے کے بعد مقامی بینک بیرون ملک بینک کو یاد دہانی کے لئے کوئی خط نہیں بھیجتا۔ اگر ہم انہیں لکھنے کا کہتے بھی ہیں تو وہاں سے کہا جاتا ہے کہ ہم خط نہیں لکھ سکتے‘‘۔
’’امت‘‘ کو اس کاروبار کے مسائل کے حوالے سے معلوم ہوا کہ پاکستانی ایکسپورٹرز بیرون ممالک کو ادھار پر ہینکس (انتڑیاں) دینے پر مجبور ہیں۔ 3 ماہ کے ادھار پر رودے بیرون ممالک ایکسپورٹ کئے جاتے ہیں، جبکہ ایکسپوٹرز کو پورے سال کی پیمنٹ 4 قسطوں میں ادا ہوتی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ رودے کے کاروبار میں نرخ میں کمی کے باعث پاکستانی ایکسپورٹرز کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ قومی درآمد کنندگان بیرون ممالک کو مال ادھار پر دینے پر مجبور ہیں، جس کے باعث رودے کے کاروبار سے وابستہ لوگ کاروبار تبدیل کر رہے ہیں۔ جبکہ کئی لوگ نقصان ہونے کے باوجود بھی پیسے پھنس جانے کی وجہ سے متعلقہ کاروبار کرنے میں مجبور ہیں۔ سردار کارپوریشن کے مالک محمد رفیق نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’10 سے 15 سال قبل 8 سے 10 دن میں پیمنٹ مل جایا کرتی تھی۔ مگر اب 3 ماہ کے ادھار پر رودے ایکسپورٹ کئے جاتے ہیں۔ ہمیں پورے سال کی پیمنٹ 4 قسطوں میں ادا کی جاتی ہے۔ رودے سے ہینکس تیار کرنے کے مراحل میں ہمارے کئی روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ہینکس کو کولڈ اسٹوریج کرنے میں بھی ہزاروں روپے کے اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہمیں ادھار پر مال ایکسپورٹ کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ دیگر ممالک کی جانب سے بیرون ممالک کو مال ایکسپورٹ کرنے میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستانی مال کی ڈیمانڈ بھی کم ہوگئی ہے۔ ہم نے اپنی پوری زندگی اسی کاروبارمیں گزاری ہے۔ اگر ہم اس کاروبار کو چھوڑ بھی دیں تو اس کے علاوہ دوسرے کاروبار میں ہمیں اس سے بھی زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا، جس کے ڈر سے ہم اپنا مال ادھار بیچنے پر مجبور ہیں‘‘۔
’’امت‘‘ نے اوجھڑی اور پتوجڑی کا کام کرنے والے مزدوروں سے بات چیت کی تو پتا چلا کہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران رودے کا کاروبار متاثر ہونے کے باعث بڑی تعداد میں دیہاڑی دار مزدور بے روز گار ہوچکے ہیں۔ کئی مزدورں کو دیگر جگہوں پر کام کرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔ ملک میں نرخ کی کمی کے باعث کئی کاروباری افراد اس پیشے کو چھوڑ چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے مزدوروں کی نوکریاں ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔ فیکٹریوں کے سروے کے دوران ایک منیجر شاہد ندیم نے بتایا کہ چند سال قبل پاکستان میں رودے کا بہترین کاروبار چل رہا تھا، جس کی وجہ سے ان کا روزگار بھی اچھا تھا۔ ایک فیکٹری سے تقریباً 20 دیہاڑی دار مزدور وابستہ تھے۔ ان مزدوروں کو فیکٹری میں کام کرنے کے عوض یومیہ 500 سے 700 روپے ملتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ نرخ میں کمی کے باعث کاروبار متاثر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان میں رودے کی فیکٹریوں میں بھی کمی ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اب ہمارے کئی ساتھی بے روزگار ہوگئے ہیں اور نتیجتاً ان کے گھروں کا چولہا بھی ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ شاہد ندیم کا کہنا تھا کہ ان کا آبائی تعلق سیالکوٹ سے ہے اور وہ پچھلے بائیس سال سے یہاں کام کر رہے ہیں۔ اس پیشے سے منسلک ہوتے ہی پہلے وہ رودے کی پیمائش پر مامور ہوئے اور پھر ان کی اچھی کارگردگی دیکھ کر کارخانے کے مالک نے انہیں کچھ سال قبل سپروائزر بنا دیا اور یوں اسی کارخانے کے ایک بالائی منزل پر ایک کمرے میں رہنے لگے اور پورے کارخانے کی دیکھ بھال کرنے لگے۔ ایک دوسرے مزدور عبدالرزاق نے کہا کہ ’’ہمیں دیگر جگہوں پر کام کرنے میں بہت دشواری کا سامنا ہے، کیونکہ ہم نے پوری زندگی اسی کام میں گزاری ہے اور ہم رودے کے کام کے ماہر بھی ہوگئے ہیں۔ ہم چاہیں بھی تو دیگر جگہوں پر مزدوری کر کے اپنا گھر آسانی سے نہیں چلا سکتے‘‘۔ عبدالرزاق نے بتایا کہ ان کی عمر 28 سال ہے اور اس کارخانے میں ہیلپر ہے اور گزشتہ آٹھ سال سے اس کارخانے میں خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ اس کی ذمہ داریوں میں برآمدی تیاریوں کے لئے ڈرم کی صفائی، دھلائی اور دیگر کام شامل ہیں۔ ایک اور مزدور احسن کا کہنا تھا کہ ان کو اس پیشے میں پانچ سال ہو گئے ہیں اور ان کی ذمہ داریوں میں رودے کی صفائی کے بعد اسے چیک کرنا شامل ہے کہ وہ خراب تو نہیں ہوا۔ پھر اس کو پیمائش کیلئے آگے بھیجنا ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھ موجود کاریگر ہارون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پیمائش کے حوالے سے ہارون مہارت رکھتے ہیں اور کئی دہائیوں سے اس کام میں ہیں۔ ہارون نے بتایا کہ ان کی عمر 55 سال ہے اور یہیں لیاری کے رہائشی ہیں۔ وہ اپنے والد اور دادا کے ساتھ اس پیشے میں 10 سال کی عمر سے کام کر رہے ہیں اور تجربے کی بنیاد پر گچھا دیکھتے ہی بتاسکتے ہیں کہ اس میں کتنے میٹر ہینکس ہیں۔ ایک دوسرے کاریگر لیاقت نے بتایا کہ ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور گزشتہ سولہ سال سے اس کارخانے میں پیمائش کا کام کر رہے ہیں۔ ان کی رہائش آگرہ تاج میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’پہلے اس کام میں بہت پیسہ تھا، لیکن اب دیہاڑی ملنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ ان دنوں تو سیزن ہے، لیکن عام دنوں میں دیہاڑی نکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک اور کاریگر عمران کا کہنا تھا کہ وہ لیاری کے رہائشی ہیں اور اس کام میں 18 سال سے ہیں، جبکہ تین سال دوسرے کارخانوں میں بھی کام کر چکے ہیں۔ وہ گزشتہ 15 سال سے اس کارخانے میں رودے کی میجرمنٹ اور سیلکشن کا کام سر انجام دے ہے ہیں۔ سعید نے بتایا کہ ان کی عمر 37 سال ہے اور وہ بھی رودے کی سیلکشن اور میجرمنٹ کرتے ہیں۔ جبکہ ان کو شاہین انٹر پرائزز میں کام کرتے ہوئے آٹھ سال ہوگئے ہیں۔ سیلمان کا کہنا تھا کہ ان کو اس پیشے میں دو سال ہوئے ہیں اور وہ بھی پیمائش اور کلیننگ کا کام کرتے ہیں۔ پیمائش اور سیلکشن کے چیف فیض احمد کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق بلوچ براداری سے ہے اور اورنگی ٹاؤن میں رہتے ہیں۔ ان کی عمر57 سال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس کام میں پچیس سال سے ہیں، جبکہ اب ان کی ذمہ داریوں میں رودے کو ہینکس میں منتقل کرنے کے تمام مراحل کی نگرانی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس برس کام میں معمولی تیزی آئی ہے، جس کی وجہ سے اسے ڈوبتا پیشہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا کہ بیرون ممالک کے خریداروں نے مال چیک کرنے کے لئے پاکستان کا دورہ کرنا بھی ختم کر دیا ہے۔ تاجر شاکر نے بتایا کہ چند سال قبل تک رودے کو ایکسپورٹ کرنے سے پہلے بیرون ملک کے خریدار فیکٹری کا دورہ کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ مال تیار ہونے کی مکمل صورت حال کا جائزہ بھی لیتے تھے کہ مذکورہ فیکٹری میں رودے کو کس طرح تیار کیا جارہا ہے۔ وہ یہاں کے کام سے بالکل مطمئن ہوکر جایا کرتے تھے۔ مگر دیگر ممالک کی جانب سے ایکسپورٹ شروع ہو جانے اور پاکستانی حکومت کی عدم توجہی کے سبب ملک میں رودے کے کاروبار کے نرخ میں کمی آتی چلی جارہی ہے، جس کی وجہ سے اب بہتر حالات نہ ہونے کے باعث بین الاقوامی خریداروں کی پاکستان آمد ختم ہوگئی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment