نمائندہ امت
پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے عمران خان کے کفایت شعاری اور سادگی کے دعوؤں کو ہوا میں اڑاتے ہوئے پورے دھوم دھڑکے اور بڑے پروٹوکول کے ساتھ میاں چنوں میں اپنے سسرالی چک (گاؤں) کا ہیلی کاپٹر میں دورہ کیا اور اس نجی دورے کو سرکاری دورے کی شکل دینے کی خاطر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میاں چنوں میں بھی پینتیس منٹ گزارے۔ اس دوران پورا میڈیکل اسٹاف اور عملہ ان کے پروٹوکول میں مصروف رہا، جس کی وجہ سے ایک غریب اور بے کس شخص محمد جہانگیر کھوکھر کی ڈیڑ ھ سالہ بچی ’’کومل‘‘ اسپتال کی ایمرجنسی میں انتقال کر گئی۔
سردار عثمان بزدار پرسوں (منگل کو) میاں چنوں کے قریب اپنے سسرالی گاؤں چک نمبر 114، ایل پندرہ کے قریب اترے اور وہاں سے سیدھا سرکاری اسپتال میں ہسپتال بارہ بجکر چالیس منٹ پر پہنچے اور ایک بج کر پندرہ منٹ پر روانہ ہوگئے۔ اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شاہد اقبال چھٹی پر ہیں اور ان کی جگہ ڈاکٹر نذیر ہراج کام کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی آمد کے پیش نظر ذرائع کے مطابق اسپتال میں ان کی آمد سے کافی پہلے ہی غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔ ایمرجنسی کے دروازے تک مریضوں کیلئے بند کر دیئے گئے تھے۔ متاثرہ شخص جہانگیر کھوکھر اپنی انتہائی بیمار بچی کے ساتھ ساڑھے گیارہ بجے اسپتال پہنچ گیا تھا۔ تھیلیسمیا کی مریضہ ڈیڑھ سالہ کومل بے ہوش تھی، لیکن اسے پھر بھی اندر نہیں جانے دیا گیا۔ ایمرجنسی کے سامنے پہنچ کر جب کومل کی والدہ اور دیگر خواتین نے رونا شروع کر دیا اور چیخ چیخ کر احتجاج کیا تو مجبوراً کہ وزیر اعلیٰ کی آمد پر کوئی نیا اور بڑا پنڈورا بکس نہ کھل جائے، ایمرجنسی کا دروازہ کھول کر بچی اور اس کی والدہ کو اندر داخل کر لیا گیا۔ اسپتال ریکارڈ کے مطابق کومل ایمرجنسی میں بارہ بج کر پچیس منٹ پر لائی گئی، جبکہ بارہ بج کر باون منٹ پر اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس دوران جبکہ بارہ بج کر چالیس منٹ پر سردار عثمان بزدار بھی ہیلی کاپٹر سے سترہ گاڑیوں کے جلوس میں سیدھے ایمرجنسی آئے اور چند منٹ ایمرجنسی میں گزار کر وارڈز کی جانب چلے گئے۔ ڈاکٹرز نے اس بچی کے علاج پر کتنی توجہ دی ہوگی؟ اس سوال کا جواب وہ تصویر بھی دے رہی ہے، جس کے حوالے سے میاں چنوں اسپتال انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ’’کومل‘‘ وزیر اعلیٰ کے دورے کے دوران ان کی ایک اور مریض کی عیادت کے وقت پس منظر میں اپنی والدہ کی گود میں نظر آ رہی ہے اور اس کا علاج ہو رہا ہے۔ جبکہ تصویر میں نظر آنے والی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زندگی کے آخری ستائیس منٹ اسپتال کی ایمرجنسی میں سانس لینے والی بچی اپنی والدہ کی گود میں تو موجود ہے، لیکن کوئی ڈاکٹر یا میڈیکل اسٹاف اس کے اردگرد نظر نہیں آ رہا۔
بچی کے والد جہانگیر کھوکھر کے مطابق وہ اپنی پہلے سے بیمار بیٹی کو لے کر سوا گیارہ بجے اسپتال پہنچ گئے تھے، لیکن بڑی مشکل سے اسپتال کے اندر جانے کی اجازت ملی۔ جب وہ ایمرجنسی کے باہر پہنچے تو پون گھنٹے تک وہاں بھی روکا گیا اور جب ان کی خواتین نے رونا شروع کیا تو ان کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ اس کے فوراً بعد ہی وزیراعلیٰ بھی آگئے تھے۔ لہذا اس دوران بچی کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے وہ انتقال کر گئی۔ جہانگیر نے بتایا کہ میری بیٹی تھیلسمیا کی مریض تھی اور نشتر اسپتال ملتان میں اس کا علاج ہو رہا تھا۔ چند دن پہلے ہی وہ اسے حالت بہتر ہونے پر واپس لائے تھے کہ گزشتہ رات اس کی طبیعت پھر خراب ہونا شروع ہوگئی۔ دوبارہ ملتان جانے کا پروگرام بنا رہے تھے کہ اچانک طبیعت زیادہ خراب ہونے پر میاں چنوں لے آئے جہاں ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوا کہ اسپتال اور ایمرجنسی کے دروازے بند کر دیئے گئے اور بروقت طبی امداد نہ ملنے سے ہماری بیٹی انتقال کر گئی‘‘۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ کو اسپتال میں موجودگی کے دوران ہی کومل کے انتقال کا علم ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے میاں چنوں میں موجودگی کے دوران ہی ڈپٹی کمشنر خانیوال اشفاق احمد کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا، جنہوں نے اسسٹنٹ کمشنر میاں چنوں، ایم ایس اسپتال اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر پر مشتمل تین رکنی کمیٹی بنا دی ہے، جو رپورٹ تیار کرے گی۔ گویا جس کے خلاف انکوائری ہونی ہے، وہی کمیٹی کا حصہ ہیں۔
’’امت‘‘ نے جب اس سلسلے میں کمیٹی کے رکن ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر قمر الزمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’اس دن میری ڈیوٹی ریسکیو 1122 کے ساتھ وزیر اعلیٰ کیلئے بنائے گئے ہیلی پیڈ پر تھی اور میں ہسپتال میں نہیں تھا اور نہ اس بارے میں زیادہ معلومات ہیں کہ کب کیا ہوا‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’کمیٹی کے بارے میں ابھی کوئی حکمنامہ نہیں ملا اور نہ میرے علم میں ہے کہ کمیٹی کب اور کتنے دنوں میں رپورٹ دے گی۔ البتہ میڈیا کے ذریعے اس کا علم ہوا ہے‘‘۔
اسپتال کی ایمرجنسی میں ذمہ دار ڈاکٹر عامر حیات نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اس سارے واقعے کی نفی کی اور کہا کہ متوفیہ بچی ان کے علاقے کی ہے اور وہ اس خاندان کو جانتے ہیں۔ ایک دن پہلے اس کی صحت بگڑ گئی تھی۔ لیکن اگلے دن دوپہر کو اسے اسپتال میں لایا گیا۔ اس وقت اس کی حالت بہت بگڑ چکی تھی۔ ایمرجنسی میں آنے کے بعد جس حد تک میڈیکل اسٹاف کے لئے ممکن تھا، اس کا علاج کیا گیا لیکن بہت تاخیر ہو چکی تھی۔ ذرائع کے مطابق تین رکنی کمیٹی کی جانب سے بچی کی تاخیر سے آمد کو موت کا جواز بنایا جائے گا اور غریب مزدور پیشہ جہانگیر سے بھی اسی طرح کا بیان لے کر معاملہ دفن کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن اس سوال کا لوئی جواب نہیں کہ ہیلی کاپٹروں اور گاڑیوں کے جلوس میں سفر کرنے والے وزیر اعلیٰ نے نجی دورے کو سرکاری دورے میں بدلنے کی خاطر مریضوں کے لئے مشکلات کیوں پیدا کیں اور اسپتال کیوں گئے۔ اسی طرح جب وہ پاک پتن میں بابا فریدؒ کے مزار پر گئے تو کئی گھنٹے پہلے اطراف کی دکانیں اور کاروبار زبردستی بند کروا کر کرفیو کا سماں پیدا کر دیا گیا اور زائرین سے مزار کو بھی خالی کرا لیا گیا، جس کی وجہ سے ہزاروں میل دور سے آنے والے زائرین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور کئی زائرین کو مزار پر حاضری دیئے بغیر مایوس واپس لوٹنا پڑا۔٭
٭٭٭٭٭