امت رپورٹ
تحریک لبیک پاکستان نے داتا دربار لاہور سے اسلام آباد کی جانب فیصلہ کن لیبک یا رسول اللہ مارچ شروع کر دیا ہے اور جب تک حکومت پاکستان ہالینڈ سے سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع نہیں کرتی، اس وقت تک احتجاجی تحریک ختم نہیں ہوگی۔ تحریک لبیک کے ماضی کے دھرنے کی روشنی میں توقع ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی اور ان کے ساتھی ہالینڈ کے سفارتخانے تک پہنچ جائیں گے۔ دوسری جانب اسلام آباد انتظامیہ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ٹی ایل پی کی ریلی کو ریڈ زون میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس حوالے سے سیکورٹی پلان بھی ترتیب دیدیا گیا ہے۔ تاہم ذرائع کے بقول اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے وہ ظاہری انتظامات نظر نہیں آرہے، جو پہلے ایسے مواقع پر ہوا کرتے تھے، کہ جن سڑکوں کو احتجاجی جلوس سے محفوظ رکھنے کے لیے بند کرنا مقصود ہوتا تھا، ان پر کنٹینرز لاکر رکھ دیئے جاتے تھے۔ اسلام آباد پولیس کے ترجمان ضیاء القمر نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس اس احتجاج کے حوالے سے پلان بنا رہی ہے اور کسی جلوس کو ریڈ زون میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ریڈ زون اور ڈپلومیٹک انکلیو میں کسی جلوس اور احتجاجی ریلی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ضرورت پڑنے پر دوسرے صوبوں سے پولیس کی اضافی نفری بلائی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق خیبر پختون اور پنجاب کی پولیس سے مدد لی جا سکتی ہے۔ جبکہ رینجرز اور ایف سی کے اضافی دستے پہلے ہی اسلام آباد میں موجود ہیں۔ سفارت خانے کی حفاظت کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی جلوس کے ہالینڈ کے سفارت خانے تک پہنچنے کا امکان بہت کم ہے، کیونکہ ہالینڈ کا سفارتخانہ ڈپلومیٹک انکلیو میں امریکی سفارتخانے کے پڑوس میں ہے، جو ہمہ وقت حفاظتی حصار میں رہتا ہے۔ ہالینڈ کے دیگر پڑوسی سفارتخانوں میں اٹلی، بھارت اور ملائیشیاکے سفارت خانے ہیں۔ لیکن اگر ڈپلومیٹک انکلیو کو جانے والے راستے پر احتجاجی جلوس بیٹھ جاتا ہے تو وہی حال ہوگا جو 2014ء میں تحریک انصاف کے دھرنے نے نواز لیگ کی حکومت کا کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے تحریک لبیک کو وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری کے ذریعے پیغام بھجوایا ہے کہ ابھی دھرنا یا لانگ مارچ نہ کریں۔ جبکہ تحریک لبیک کی جانب سے پیر محمد افضل قادری نے یہ مطالبہ پیش کیا ہے کہ گستاخانہ خاکے رکوائیں یا بطور احتجاج ہالینڈ کا سفیر واپس بھیجیں۔ ان قدامات سے کم پر احتجاج ختم نہیں ہوگا۔ مذاکرات کے اس پہلے دور میں حکومتی وفد میں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری، صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت اور دیگر افسران شامل تھے۔ جبکہ تحریک لبیک کے وفد کی قیادت پیر محمد افضل قادری بانی تحریک لبیک یارسول اللہ نے کی۔ ان کے ہمراہ علامہ وحید نور، ڈاکٹر شفیق امینی و دیگر تھے۔ لاہور سے آنے والے جلوس میں راولپنڈی اور اسلام آباد سے بھی لوگ اور دیگر جماعتیں شامل ہوجائیں گی تو شرکا کی تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ ہالینڈ کے سفیر کو احتجاجاً ملک بدر کر دیا جائے۔ لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے۔ حکومت کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چونکہ وزارت داخلہ کا قلمدان خود وزیر اعظم عمران خان کے پاس ہے، اس لئے بڑے فیصلے کرنا آسان نہیں رہا۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شہر یار آفریدی کو وزیر مملکت برائے داخلہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس وقت اسلام آباد میں صدارتی انتخابات کی وجہ سے تمام اہم شخصیات موجود ہیں اور سابق وزیر اعظم نوازشریف کے مقدمات کی نیب عدالت میں سماعت بھی ہو رہی ہے، جس پر سیکورٹی کے سخت انتظامات ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے خود اپنی سیکورٹی کی خاطر ہیلی کاپٹر کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری یہ کہہ رہے ہیں کہ سابق وزیر اعظم کا ٹرائل جیل میں ہونا چاہیے، کیونکہ جیل سے نواز شریف کو لانے لے جانے پر کافی رقم خرچ ہوتی ہے اور خطرات بھی لاحق رہتے ہیں۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب ایک بہت بڑا احتجاجی جلوس اسلام آباد میں داخل ہونے کے لئے چل پڑا ہے۔ اس جلوس کے مطالبات بھی واضح ہیں اور مقاصد بھی۔ حکومت نے تحریک لبیک سے مذاکرات کا آغاز کیا ہے تو تحریک لبیک نے دو میں سے ایک مطالبہ پورا ہونے پر احتجاج ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ پہلا یہ کہ گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ رکوائیں۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہیں تو کم ازکم ہالینڈ کے سفیر کو پاکستان سے نکال دیں۔ جبکہ دیگر جماعتوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ہالینڈ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو ختم کیا جائے۔
٭٭٭٭٭