لاہور سے تحریک لبیک کے ہزاروں کارکن ایک ہفتے کا زادراہ لے کر روانہ

محمد زبیر خان/ عظمت علی رحمانی
تحریک لیبک پاکستان کی ’’لبیک یا رسول اللہ ریلی‘‘ لاہور سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوگئی ہے۔ اس ریلی میں ہزاروں پُرجوش نوجوانوں نے ایک ہفتے کا زادِ راہ بھی ساتھ رکھا ہوا ہے۔ عاشقان رسول کا قافلہ جی ٹی روڈ سے سفر کرتا ہوا آج (جمعرات کو) اسلام آباد پہنچے گا۔ اس قافلے کو مختلف مقامات پر استقبال کیا جائے گا اور عوام قافلے میں شامل ہوتے رہیں گے۔ کراچی، حیدرآباد اور اندرون سندھ سے بھی کارکنان شریک ہوئے، جبکہ کارکنوں کی بڑی تعداد اسلام آباد پہنچے گی۔ اھر گزشتہ روز (بدھ کو) حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات نا کام ہوگئے ہیں، تاہم بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ تاہم تحریک لبیک نے ہالینڈ سے سفارتی تعلقات ختم کرنے اور ڈچ مصنوعات پر پابندی لگانے کے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں اسلام آباد میں دھرنے کا انتباہ دے دیا ہے۔ ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کیلئے دو بار کوششیں کی جا چکی ہیں، جو علامہ خادم حسین رضوی کے اصولی موقف کے سبب ناکام رہیں۔ ذرائع کے مطابق علامہ خادم رضوی نے عمران خان کو پیغام پہنچایا تھا کہ وہ تحریری طور پر ممتاز قادری کو شہید تسلیم کریں اور یہ کہ اب تک جتنے غیر شرعی کام کئے ہیں، ان سے توبہ کریں۔ لیکن عمران خان نے انکار کر دیا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اور پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے بدھ کے روز تحریک لبیک کی قیادت کے ساتھ ملاقات کی اور ان سے مذاکرت کرنے اور اسلام آباد کی جانب مارچ اور دھرنا ملتوی کرنے کی گزارش کی۔ ذرائع کے مطابق اس کے جواب میں تحریک لبیک کے رہنما پیر افضل قادری کی قیادت میں تین رکنی وفد نے حکومتی وفد کو دو ٹوک بتایا کہ صرف اقوام متحدہ میں مسئلہ اٹھانے کے اعلان اور او آئی سی کے اجلاس بلانے سے عوام اور امت مسلمہ کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت پاکستان باضابطہ طور پر ہالینڈ حکومت کو وراننگ جاری کرے اور اگر پھر بھی وہ گستاخانہ خاکوں کے مقابلے نہیں رکواتی تو پھر ہالینڈ سے پاکستانی سفیر کو واپس بلایا جائے اور ہالینڈ کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہالینڈ کی تمام مصنوعات اور وطن عزیز میں اس کی کمپنیوں پر پابندی عائد کی جائے۔ ذرائع کے مطابق حکومتی وفد نے اس مطالبے پر اپنی معذوری کا اظہار کیا اور کہا کہ اس بین الاقوامی معاملات کے سبب فی الحال ایسا کرنا ممکن نہیں۔ اس پر پیر افضل قادری نے تحریک لیبک کی جانب سے اسلام آباد کی جانب مارچ جاری رکھنے کا عندیہ دیا۔ ذرائع کے بقول حکومتی وفد کی جانب سے بات چیت جاری رکھنے کی درخواست کی حمایت کی گئی ہے۔ حکومتی رہنما اور تحریک لیبک کے قائدین رابطے میں رہیں گے۔ مزید یہ کہ حکومت کی جانب سے تحریک لیبک کو کہا گیا ہے کہ اگر قافلہ پر امن رہے گا تو کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔
ادھر گزشتہ روز (بدھ کو) تحریک لیبک کے عاشقان رسول کا قافلہ داتا دربار لاہور سے شام چار بجے اسلام آباد کی جانب روانہ ہو گیا۔ داتا دربار پر تحریک لیبک کے کارکنوں کی بہت بڑی تعداد صبح سے ہی اکٹھی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ جو تحریک لیبک کی جانب سے لگائے گئے اسٹالز سے تحریک کے جھنڈے، بیجز، ٹوپیاں وغیرہ خریدتے رہے اور وقفے وقفے سے داتا دربار کے سامنے والے روڈ پر جمع ہوکر نعرے لگاکر دلوں کو گرماتے رہے۔ ریلی میں شرکت کرنے کیلئے کراچی اور حیدر آباد سمیت اندرون سندھ کے علاوہ دیگر شہروں سے بھی کارکنان اور رہنما پہنچتے رہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق کراچی اور سندھ سے قافلے براہ راست بھی اسلام آباد پہنچیں گے۔ جبکہ قائدین لاہور سے قافلے کے ہمراہ روانہ ہوئے ہیں۔
لاہور سے روانہ ہونے والی ریلی میں تیس سے زائد بسیں، درجنوں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ چار کنٹینرز بھی ساتھ تھے۔ ایک کنٹینر میں علامہ خادم حیسن رضوی اور پیر افضل قادری سمیت دیگر قائدین ہیں۔ علامہ خادم حسین رضوی کوئی تین بجے کے قریب اپنی گاڑی میں داتا دربار کے قریب اچانک اور تنہا پہنچے اور جیسے ہی ان کی داتا دربار پر آمد کی اطلاع کارکنان تک پہنچی تو ہر طرف سے کارکنان نے یہ کہتے ہوئے کار کی دوڑ لگا دی کہ ’’بابا آگیا، بابا آگیا‘‘۔ اس موقع پر کارکنان نے علامہ خادم حسین رضوی کا شاندار استقبال کیا اور ان کی گاڑی کو گھیرے میں لے کر دیر تک نعرے لگاتے رہے۔ علامہ خادم حسین رضوی کم و بیش ایک گھنٹہ تک گاڑی ہی میں موجود رہے۔ چار بجے علامہ خادم حسین رضوی کو کنٹینر پر سوار کروایا گیا۔ ان کے ہمراہ ڈاکٹر علامہ افضل قادری بھی موجود تھے۔ اس موقع پر تحریک لبیک نے سیکورٹی کے سخت ترین اقدامات کئے ہوئے تھے اور نوجوان جو خصوصی وردی میں تھے، نے کنٹینر کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ لاہور سے روانہ ہونے والے ہزاروں کارکنان کئی روز تک اسلام آباد میں دھرنا دینے کیلئے باقاعدہ تیاری کرکے گئے ہیں۔ چنوں کی وافر مقدار کے علاوہ بیکری آئٹم اور کھانے کی خشک چیزیں ساتھ رکھی گئی ہیں۔ کارکنان میں بہت سے کارکن ایسے ہیں جو پہلے فیض آباد دھرنے میں شریک تھے۔ دھرنے میں شریک ہونے والے ایک کارکن حافظ قمر جو این اے 126 کے میڈیا سیل کے انچارج بھی ہیں، نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ یہ دھرنا ایک دو روز نہیں کئی روز تک جاری رہے گا۔ حکومت کو ہمارے مطالبات تسلیم کرنے پڑیں گے، جو بہت واضح ہیں۔ کیونکہ جب جس کا دل چاہتا ہے، ہمارے دلوں کو تکلیف دیتا ہے اور پھر ہمارے ملک میں سفارتکاری بھی کرتا ہے اور ہمارے ہی ملک میں اپنی اشیا بھی فروخت کرتا ہے۔ مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔ ہمارا بیس کروڑ کا ملک ہے۔ اس ملک میں وہ کاروبار نہیں کر سکے گا، جو ہمارے نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرے گا‘‘۔ ایک سوال پر حافظ قمر کا کہنا تھا کہ ’’لاہور سے جانے والے کارکنان ذہنی طو رپر تیار ہیں کہ وہ کئی روز تک اسلام آباد میں رہیں گے اور ہمارا یہ دھرنا فیض آباد والے دھرنے سے بہت بہتر ہوگا۔ یہ جہاد ہے اور اس میں مشکلات تو ہوتی ہی ہیں‘‘۔ ایک اور کارکن گل نصیر جو لاہور سمن آباد کے رہائشی تھے، نے بتایا کہ وہ اپنے ہمراہ ایک ہفتے کا سامان ساتھ لے کر جارہے ہیں۔ ضرورت پڑی اور بابا نے حکم دیا تو وہ کئی دن تک وہاں رہ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’فیض آباد کے دھرنے سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس بار دھرنے میں ہمارے انتظامات بہتر ہوں گے‘‘۔
ادھر اہم ذرائع نے بتایا کہ انتخابات سے قبل خاتون اول بشریٰ بی بی نے عمران خان کو خبردار کیا تھا کہ خادم حسین رضوی کا موقف لچک دار نہیں لگتا، اور تحریک لبیک نہ صرف الیکشن میں بھاری ووٹ لے کر حیران کردے گی، بلکہ حکومت کیلئے مسائل بھی کھڑے کر گی۔ لہذا ابھی سے تحریک لبیک کے قائدین کے ساتھ مراسم بڑھانے چاہئیں۔ ذرائع کے مطابق اس مشورے پر عمران خان شروع میں نہیں مانے تھے۔ تاہم انتخابات سے کچھ روز قبل کرائے گئے تحریک انصاف کے اپنے ہی ایک سروے نے ان کی سوچ تبدیل کر دی۔ واضح رہے کہ سروے میں دینی جماعتوں کے بڑے اتحاد ایم ایم اے کی نسبت تحریک لبیک پاکستان کی مقبولیت زیادہ سامنے آئی تھی۔ اس سروے رپورٹ کو دیکھ کر عمران خان نے بشریٰ بی بی کی تجویز کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ تحریک انصاف کو فنڈنگ کرنے والے انگلینڈ سمیت دیگر ممالک کے رہنماؤں کو ٹاسک دیا کہ وہ وہاں پر موجود تحریک لبیک سے وابستہ کشمیری برادری کے رہنماؤں کے ذریعے بات چیت کو آگے چلائیں۔ ذرائع کے بقول کشمیری برادری کے بعض رہنمائوں نے پی ٹی آئی کے پیغامات سے علامہ خادم حسین رضوی کو آگاہ کیا، لیکن ان کی جانب سے واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا گیا کہ عمران خان کے بارے میں کسی بھی قسم کی خوش فہمی میں نہ رہا جائے۔ تاہم تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے اصرار کیا گیا کہ عمران خان تحریک لبیک کی شرائط تسلیم کرلیں گے اور یہ کہ دونوں جماعتیں مل کر انتخابات لڑیں گی۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کے اصرار پر علامہ خادم حسین رضوی نے چند شرائط پیش کیں۔ خادم حسین رضوی کا پہلا مطالبہ تھا کہ عمران خان نے اپنی سابقہ زندگی میں جو غیر شرعی کام کئے ہیں، ان کو آئندہ نہ دہرانے کا اعلان کریں۔ دوسرا یہ کہ ممتاز قادری کے بارے میں انٹرویو میں انہیں قاتل کہنے والا اپنا بیان واپس لیں۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ شرائط و مطالبات عمران خان سے پہلے بشریٰ بی بی کو بتائے گئے، جنہوں نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ ان میں کوئی ایسی بات نہیں، جو تسلیم کرنے کے قابل نہ ہو، جس پر عمران خان نے دونوں باتوں کو تسلیم کرنے کا کہا۔ تاہم علامہ خادم حسین رضوی نے کہا کہ یہ سب کچھ تحریری شکل میں دیں، جس پر عمران خان نے لکھ کر دینے سے انکار کیا اور اس کے بعد علامہ خادم رضوی نے واضح پیغام بھیجا کہ اب کسی بھی صورت ایسے شخص سے بات نہیں ہو سکتی۔ ذرائع نے بتایا کہ تحریک انصاف نے انتخابات سے قبل ٹی ایل پی کو کہا تھا کہ وہ جو سیٹیں چاہیں، وہاں سے اتحاد کی بات کریں۔ اسی پر خادم حسین رضوی نے الیکشن کے دوران پنڈی کے جلسے میں کہا تھا کہ ’’ہمیں کھلی آفر ہے، مگر ہم کمزور نظریہ والے لوگوں سے کسی قسم کی ڈیل نہیں کرتے۔ یہ سیٹیں اور حکومتیں ہمارے لئے اہم نہیں۔ میں ایسی صدارت اور وزارت عظمیٰ پر لعنت بھیجتا ہوں، جس پر ہوتے ہوئے میں نبی کریمؐ کے دین کا دفاع نہ کرسکوں۔ ہمیں ایک سیٹ بھی نہ ملے، لیکن ہم حضورؐ کے دین پر پہرہ دینے نکلیں گے‘‘۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کے بعد بھی ہالینڈ کے خلاف مسلسل احتجاج کے بعد بشریٰ بی بی نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ ہالینڈ اور گستاخانہ خاکوں کے خلاف بولیں۔ کیونکہ سب دینے جماعتوں کے احتجاج پر تحریک لبیک کا احتجاج بھاری ہو گا، جو حکومت کیلئے اچھا نہیں ہو گا۔ اس کے بعد عمران خان نے سینیٹ اجلاس میں گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے بیان دیا۔ تاہم بحیثیت وزیراعظم وہ ہالینڈ کے حوالے سے کوئی سخت حکمت عملی ترتیب دینے سے پھر بھی گریزاں رہے۔ جس کے دوسرے ہی روز تحریک لبیک نے احتجاج کا اعلان کر دیا۔ ذرائع کے مطابق ایک بار پھر ملکی اور بیرون ممالک میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے رابطے کئے گئے، تاہم تحریک لبیک کا ایک ہی موقف ہے کہ ہالینڈ کے سفیر کو ملک سے فوری طور پر نہ صرف واپس بھیجا جائے، بلکہ ہالینڈ کی مصنوعات پر بھی پابندی لگائی جائے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment