دوسرا حصہ
عبدالمالک مجاہد
1995ء کی بات ہے کہ ایک روز معتوق رات گئے گھر آیا۔ وہ نشے میں دھت تھا۔ اس کی بیوی اس کا انتظار کر کے سو چکی تھی۔ رشیدہ اپنے کمرے میں علیحدہ سوئی ہوئی تھی۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا قدرے رکا، سوچا اور پھر اس پر شیطان غالب آ گیا۔ نجانے وہ کب سے شیطانی منصوبے بنا رہا تھا۔ رشیدہ اسے اپنا باپ سمجھتی تھی۔ رشیدہ نے اسے روکنے کی کوشش کی، منع کیا، منت سماجت کی، مگر معتوق نے اس کی عزت کو تار تار کر کے رکھ دیا۔ وہ بھاگنا بھی چاہتی تو ایسا ممکن نہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ گھر سے باہر کتنے بھیڑیئے اس کو شکار کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں اسے کھانا اور ٹھکانا میسر تھا، پھر شیطان ناچتا رہا۔ اس نے اپنے آپ کو وحشی کے سپرد کر دیا۔
رشیدہ کی عمر سولہ یا سترہ سال کی تھی۔ جب معتوق کی بیوی کو سب کچھ معلوم ہوگیا۔ اس نے شدید احتجاج کیا۔ اس نے معتوق سے کہا: اب یہ لڑکی اس گھر میں رہے گی یا میں رہوں گی۔ تم مجھے طلاق دو۔ زانی اور شرابی بزدل ہوتا ہے۔ وہ جانتی تھی کہ معتوق مجھے کبھی طلاق نہیں دے سکتا۔ معتوق بھی بزدل تھا۔ وہ بیوی کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور پھر وہی ہوا کہ اس نے رشیدہ کو گھر سے نکال دیا۔
رشیدہ اس دوران ضرورت سے زیادہ سمجھدار ہو چکی تھی۔ وہ گھر سے نکلی تو اس کا رخ بازار حسن کی طرف تھا۔ وہ خوبصورت اور جوان تھی۔ اس بازار میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ وہ بے حیائی اور فحاشی میں آگے بڑھتی چلی گئی۔ اس کے گاہکوں میں بڑے بڑے امیر کبیر اور حکومتی عہدے دار شامل تھے۔
مراکش کی حکومت نے پولیس کا ایک خاص محکمہ بنایا ہوا ہے، جس کا کام لوگوں کے اخلاق کی اصلاح کرنا ہے۔ اس محکمے کے سربراہ بریگیڈیئر عبد العزیز تھے۔ وہ ایسی بھٹکی ہوئی لڑکیوں کے پیچھے رہتے۔ ان کی اصلاح کرتے، ان کو سزا دلواتے، جیل بھجواتے۔
رشیدہ جب اس بازار میں آئی تو اپنا نام تبدیل کر کے سلویٰ رکھ لیا۔ وہ اپنے جیسی لڑکیوں کی لیڈر بن گئی۔ عبد العزیز نے اسے کتنی مرتبہ جیل بھجوایا۔ وہ جیل جاتی، مگر چھوٹ جاتی، پھر غلط کاموں میں پڑ جاتی۔ ان لڑکیوں نے اس کا نام ’’عمید المصیبۃ‘‘ رکھ چھوڑا تھا۔ بریگیڈیئر کو عربی زبان میں عمید کہتے ہیں۔ وہ اسے مصیبت کا بریگیڈیئر کہتی تھیں۔ پولیس کے اصلاحی محکمہ اور ان بد کردار لڑکیوں کے درمیان آنکھ مچولی چلتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ بریگیڈیئر عبد العزیز نے ان کو جیل بھجوایا تو انہوں نے اس سے اس طرح انتقام لیا کہ اپنے خاص تعلقات استعمال کر کے عبد العزیز کا ٹرانسفرکروا دیا۔ عبد العزیز کو اس کا بڑا رنج ہوا۔ اب وہ مراکش سے باہر ڈیوٹی کر رہا تھا۔ عبد العزیز کی ایک بیٹی اور بیٹا تھا۔ بیٹی کی اس نے شادی کر دی تو وہ اپنے خاوند کے ہمراہ دوسرے شہر چلی گئی۔ بیٹا اعلیٰ تعلیم کے لیے دوسرے ملک روانہ ہو گیا۔
میاں بیوی گھر میں اکیلے تھے۔
اس دوران عبد العزیز کے ساتھ بہت بڑا حادثہ پیش آیا کہ اس کی زندگی بھر کی ساتھی، محبوب اہلیہ کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ عبد العزیز مراکش کے پر آسائش علاقے میں خوبصورت گھر بنا چکا تھا۔ اہلیہ کا انتقال ہوا تو اس کا نوکری سے جی بھر گیا۔ ہر چند کہ وہ چاق و چوبند اور صحت مند تھا، مگر اس کے باوجود اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائے۔ اس نے حکومت کو درخواست دی جو قبول کر لی گئی۔ اب وہ دوبارہ مراکش واپس آ گیا تھا۔
ادھر سلویٰ اور اس کی سہیلیاں پہلے سے زیادہ آزادانہ ماحول میں داد عیش دے رہی تھیں۔ عبد العزیز اپنے گھر میں اکیلا تھا، اسے کوئی کام نہ تھا۔ بھلا ایک ایسا شخص جس نے عزم و عمل سے بھرپور زندگی گزاری ہو، وہ فارغ کیسے رہ سکتا ہے؟ اس نے حکومت سے درخواست کی: مجھے بے شک تنخواہ نہ دیں، مگر مجھے واپس اپنی ڈیوٹی پر جانے دیں۔ اس کی درخواست قبول کر لی گئی۔ اب اس کا مرتبہ وہ تو نہ تھا، مگر پھر بھی وہ اصلاح کے کام میں لگ گیا۔ (جاری ہے)