آخری حصہ
انسان کو کبھی بھی رحمت الٰہی سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ خدا کی ذات تو وہ ہے جو موت اور ہلاکت کے اسباب میں بھی زندگی اور راحت دینے والا ہے، ارشاد باری تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’اور خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔‘‘
لیکن میں نے سوچا کہ موت کو جب آنا ہوگا، وہ تو تب ہی آئے گی، اس سے پہلے تو آنہیں سکتی، لہٰذا فی الحال تو مجھے اپنے بچاؤ کی تدبیر کرنی چاہیے اور یوں موت کے سامنے خود ہی نہیں گر جانا چاہیے۔ میں نے اپنے آپ کو امید دلائی، شیر جوں ہی ذرا آہستہ ہوتا تو میں اپنے پاؤں سے اس کے پہلوؤں میں ایڑ لگاتا تو وہ پھر اڑانیں بھرنے لگا جاتا۔
مجھے اپنی خستہ حالت اور اس تیز رفتار سواری پر تعجب ہو رہا تھا۔ ساتھ ساتھ میں حق تعالیٰ سے دعا بھی کر رہا تھا اور سراپا خوف و رجاء (امید) کی تصور بنا ہوا تھا، یہاں تک کہ باد سحر (صبح صادق سے پہلے چلنے والی میٹھی اور ٹھنڈی ہوائیں) کے جھونکے مجھ سے ٹکرائے، میری ہمت بندھی، دن آیا اور سورج چڑھ گیا۔ میں نے حق تعالیٰ سے آہ و زاری میں اضافہ کر دیا۔
اچانک مجھے دور سے ناقوس (گھنٹی) کی آواز سنائی دی۔ شیر نے مزید تیز بھاگنا شروع کر دیا، آواز نزدیک ہوتی جا رہی تھی، پھر شیر ایک ٹیلے پر چڑھ گیا، مجھے دریائے فرات نظر آگیا، وہ کنارے پر آہستہ آہستہ چلتا رہا، آخر کار اسے ایک گھاٹ مل گئی، وہ وہاں سے اتر کر دریا میں اتر کر تیرنے لگا، اس وقت میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اگر اس وقت میں نے اس سے چھٹکارا حاصل نہ کیا تو پھر کبھی بھی حاصل نہ کر سکوں گا۔
نہایت نرمی اور آہستگی سے میں اس سے جدا ہوا اور لیٹے لیٹے ہی تیرنے لگا۔ شیر ایک طرف کو تیرتا رہا اور دور نکل گیا۔ تھوڑی دیر تیرنے کے بعد میں ایک جزیرے پر پہنچ گیا، لیکن اب میری ہمت جواب دے گئی اور کنارے پر پہنچے ہی میں نڈھال ہوکر گر گیا اور بے ہوش ہو گیا۔
دوبارہ سورج کی روشن کرنوں نے ہی مجھے بیدار کیا، بیدار ہوتے ہی میں دوبارہ سائے کے لیے کوئی درخت ڈھونڈنے لگا ہی تھا کہ واپس کنارے پر مجھے شیر دھوپ سینکتے نظر آگیا، لیکن اب مجھے اس کا قطعی کوئی خوف محسوس نہیں ہوا، عصر تک میں ایک درخت کی چھاؤں میں رہا اور خوب سیراب ہوکر پانی پیتا رہا۔ نماز عصر کے بعد مجھے پانی پر ایک کشتی ڈولتی نظر آئی تو میں نے کشتی والوں کو آواز لگائی تو وہ بیچ دریا رک گئے۔
میں کہا: ’’خدا کے واسطے مجھ پر رحم کرو اور مجھے کشتی میں بٹھالو!‘‘
کہنے لگے: ’’تم ہمیں ڈاکوؤں کے آدمی معلوم ہوتے ہو!‘‘
میں نے انہیں اپنے زخم دکھلائے اور انہیں قسم دے کر کہا:
’’میرے علاوہ اس جزیرے پر کوئی آدمی نہیں ہے، میں نے انہیں شیر دکھلایا اور کہا کہ بھائی! میری داستان بڑی عجیب ہے، اگر تم یہاں سے مجھے لیے بغیر گزر گئے تو خدا کی قسم! تم میرے قاتل ٹھہرو گے، لہٰذا میرے معاملے میں خدا سے ڈرو!‘‘
وہ رک گئے اور مجھے اپنے ساتھ سوار کر لیا۔ کشتی پر پہنچتے ہی دوبارہ بے ہوش ہوگیا۔ دو دن بعد مجھے ہوش آیا تو میرے جسم پر صاف ستھرے کپڑے تھے اور میرے خون آلودہ زخم دھو دیئے گئے تھے اور ان پر تیل اور دوائیاں لگی ہوئی تھیں اور میں زندہ سالم تھا۔
کشتی والوں نے مجھ سے میری داستان پوچھی۔ میں نے انہیں من وعن سب بیان کردی، پھر ہم ’’ہیت‘‘ پہنچے تو میں نے گورنر کو پیغام بھجوایا، اس نے اپنے ہرکارے (خادم) فوراً بھیجے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ گورنر نے کہا:
’’نہ جانے کیوں مجھے بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ تم زندہ ہوگئے۔ خدا کا شکر ہے کہ میرا گمان صحیح نکلا، بتاؤ! تم پر کیا بیتی؟‘‘
میں نے شروع سے آخر تک ساری داستان اسے سنائی تو وہ بے پناہ حیران ہوا اور کہنے لگا:
’’جس جگہ تمہارے قافلے کو لوٹا گیا اور جس جگہ سے کشتی والوں نے تمہیں سوار کیا، خدا کی قسم! بلا مبالغہ دونوں کے درمیان چالیس فرسخ کا فاصلہ ہے۔‘‘
پھر میں اس کے پاس چند دن رہا، اس نے مجھے زاد راہ، کپڑے اور ایک کشتی دی۔ میں بغداد آگیا اور دس ماہ وہاں اپنے زخموں کا علاج کرواتا رہا۔
اس دوران میں تہی دامن (کنگال) ہوگیا اور فقر و فاقوں نے مجھے گھیر لیا۔ میں نے پوری زندگی کی جمع پونجی اپنے علاج معالجے پر لگادی اور میرے پاس کچھ بھی نہ رہا۔ میں وزیر کے پاس آیا تو اسے میری حالت زار پر رحم آگیا او اس نے کچھ مال و دولت دے کر مجھے تمہارے پاس بھیج دیا۔
(راحت پانے والے، تصنیف: شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض سعودی عرب)