قسط نمبر101
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
ٹھٹھرا دینے والی رات میں چہرے پر اچانک گرنے والا یخ پانی نیند کی دوا کے نشے میں مدہوش عورت کے اعصاب بھی جھنجوڑنے کے لیے کافی ثابت ہوا۔ اس نے چیخ کی شکل میں کرشن بھگوان سے مدد مانگی اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس ساری صورتِ حال سے مکمل طور پر بے خبر سچن اس ناگہانی آفت پر بری طرح بوکھلا گیا اور اس کے حلق سے بھی ہلکی سی چیخ نکل گئی۔
بے ساختہ لحاف سے منہ پونچھتی حواس باختہ عورت کی نگاہ سچن پر پڑی اور پھر اچانک وہ پوری طرح ہوش میں آگئی اور اسے خوں خوار نظروں سے گھورتے ہوئے حلق پھاڑ کر گجراتی زبان میں اس پر برس پڑی۔ مجھے جتنی محدود گجراتی زبان آتی تھی ، اس کے مطابق وہ ٹھنڈا پانی پھینک کر نیند برباد کرنے کی گھٹیا حرکت پر اسے بری طرح لعنت ملامت کر رہی تھی۔ اپنے چہرے پر موجود بھرپور نسوانی کشش کے برعکس اس کے لہجے میں عجیب کرختگی اور تحکم تھا، جیسے کوئی سخت گیر مالک اپنے نوکر کو کسی سنگین غلطی پر لتاڑ رہا ہو۔
لیکن مجھے اس عورت کی رعونت سے زیادہ سچن کے لہجے کی لجاجت اور تابع داری بھانپ کر جھٹکا لگا۔ وہ اس طرح گھگھیاتے ہوئے اپنے والدین کی قسمیں کھاتے ہوئے صفائی پیش کر رہا تھا، جیسے وہ کوئی زر خرید غلام ہو، جو خود پسند ملکہ کی نگاہوں کی جنبش پر دہکتے الاؤ میں پھینکا جا سکتا ہو۔ وہ بار بار ’’آرتی دیوی‘‘ کو یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس نے پانی نہیں پھینکا اور اسے قطعاً علم نہیں ہے کہ پانی سے بھرا ہوا گلاس کب اور کیوں بستر کے سرہانے پہنچا اور کیسے اس کے چہرے پر الٹ گیا۔ لیکن اس کی آہ و زاری، منت سماجت کو آرتی دیوی نے قابلِ توجہ نہیں سمجھا اور اس پر لعنت ملامت جاری رکھی۔ بالآخر اس کا غصہ کچھ ٹھنڈا پڑنے لگا۔ وہ بستر سے اٹھی اور غسل خانے میں چلی گئی۔
طوفان ٹلتا دیکھ کر سچن نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس نے ایک زوردار انگڑائی لی اور لحاف منہ تک اوڑھ کر لیٹ گیا۔ آرتی نے غسل خانے میں اچھی خاصی دیر لگادی۔ اس دوران غالباً سچن کی آنکھ لگ گئی۔ بالآخر غسل خانے کا دروازہ کھلا اور آرتی برآمد ہوئی۔ وہ اب پوری طرح تر و تازہ اور چاق و چوبند دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے ایک نظر محو خواب شوہر پر ڈالی۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اس کے حسین چہرے پر ایک بار پھر ناراضی کے بادل امڈتے نظر آئے۔
وہ چند لمحوں تک منہ لپیٹ کر پڑے ہوئے سچن کو گھورتی رہی۔ اچانک وہ تیزی سے آگے بڑھی اور اس کے جسم پر سے لحاف کھینچ کر ایک طرف پھینک دیا۔ ساتھ ہی غرانے کے انداز میں گجراتی میں کہا ’’میری نیند اڑاکر اب آرام سے سو رہے ہو نواب صاحب‘‘۔
لحاف کھینچے جانے اور سردی کی لہر کے ساتھ ساتھ زور دار ڈانٹ نے سچن کو بلا تاخیر جاگنے اور بستر پر اٹھ کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے لاچار لہجے میں سوال کیا ’’خیریت تو ہے؟ اب کیا ہوا آرتی دیوی؟‘‘۔
اس معصومانہ سوال پر آرتی کا پارہ ایک بار پھر چڑھ گیا ’’تمہیں پتا ہے ناں مجھے اکیلے جاگتے ہوئے ڈر لگتا ہے؟ اب مجھے جب تک دوبارہ نیند نہیںآتی، تمہیں بھی جاگنا پڑے گا‘‘۔
رت جگے کے علاوہ نشے نے بھی سچن کو نیند سے نڈھال کر رکھا ہوگا، لہٰذا اس نے منمناتے ہوئے سونے کی خواہش کا اظہار کیا، جس پر آرتی نے اسے ڈپٹا ’’تم بھی تو میرے ساتھ ہی سوئے تھے۔ میری نیند پوری ہوگئی، تم کیوں نیند سے نڈھال ہو رہے ہو۔ جب تک مجھے دوبارہ نیند نہیں آتی، تم بھی جاگو اور مجھ سے بات کرو!‘‘۔
تب مجھے ادراک ہوا کہ سچن اپنی بیوی کی لاعلمی میں عیاشی کرنے گیا تھا، لیکن وہ حاکم مزاج عورت تو رات کو کسی بھی وقت جاگ سکتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے شوہر کی غیر موجودگی سے واقف ہوجاتی۔ گھر کے باہر میرے شور مچانے پر سچن نے کہا تھا کہ اس کی پتنی نیند کی گولی کھاکر سو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس نے خود نیند کی گولی کھائی تھی یا سچن نے اسے دھوکے سے نیند کی گولی کھلا کر اسے گہری نیند سلایا تھا، تاکہ جب تک جی چاہے رنگ رلیاں منا سکے۔ اپنے اس شک کی تصدیق کا میرے پاس فی الحال کوئی طریقہ نہیں تھا، لہٰذا میں نے کان لگاکر ان کی باہمی گفتگو سننے او ر ان کے معاملات سمجھنے کی جستجو پر اکتفا کرنے کا فیصلہ کیا۔
سچن کے پاس کوئی چوں چرا کیے بغیر اپنی بیوی کے حکم کی تعمیل کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ لہٰذا اس نے بظاہر بلا تعرض اس کی بات مان لی۔ وہ دونوں مسہری کے سرہانے سے ٹیک لگاکر نیم دراز حالت میں آپس میں باتیں کرنے لگے۔ ادھر ادھر کی کچھ باتوں کے بعد ان کی گفتگو آرتی کے باپو شری پاٹھک لال سونی (سنار) کے شدت اختیار کرتے فالج کے عارضے کی طرف مبذول ہوگئی۔ آرتی اپنے باپ کی خیریت کے حوالے سے شدید فکرمند تھی۔ سچن اسے ہر ممکن تسلی دینے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن نیند اس پر مسلسل حملہ آور ہو رہی تھی، جس پر اسے آرتی سے ڈانٹ بھی سننی پڑ رہی تھی۔
اچانک ان کی گفتگو میں ایک ایسا موڑ آیا جس نے مجھے ان کی باتیں مزید غور سے سننے پر مجبور کر دیا۔ اپنے باپ کی بیماری پر تشویش کا اظہار کرتی آرتی نے یک بیک فیصلہ سنا دیا کہ وہ اپنے باپ کی عیادت کے لیے کل ہی احمد آباد جائے گی اور سچن کو بھی اس کے ساتھ گجرات چلنا ہوگا۔ یہ سن کر سچن بری طرح گڑبڑا گیا۔ اس نے التجا کے انداز میں کہا کہ میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ دفتر میں کام کا بہت دباؤ ہے۔ ہفتہ وار چھٹی بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ رکھشا منترالے (محکمہ دفاع) کا شدید دباؤ ہے کہ وکرانت کو ایک ماہ کے اندر بالکل ریڈی ہوجانا چاہیے۔ لہٰذا فوری چھٹی ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور پیشگی اجازت لیے بغیر اچانک کئی دن کی حاضری اس کی نوکری تیل کر دے گی۔ (جاری ہے)