خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ کا تکیہ کلام کلمہ طیبہ تھا۔ یعنی زبان پر اکثر اوقات یہ الفاظ رہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مشاہدہ حق میں اس قدر استغراق نصیب تھا کہ ان کی نگاہ خدا کے ماسوا کی طرف اٹھتی ہی نہیں تھی۔ حضرت عمرؓ تکیہ کلام اللہ اکبر تھا۔ گویا نظر غیر کی طرف اٹھتی تو تھی، مگر تحقیق کی نظر تھی، پہچانتی تھی کہ یہ سب ہیچ ہے۔ عظمتوں والی ذات تو صرف اللہ کی ہے۔ حضرت عثمانؓ کا تکیہ کلام تھا الحمد للہ۔ ان کو مقام تحمید نصیب تھا، گویا اللہ رب العزت کی طرف توجہ کامل تھی، مگر جب کبھی غیر کی طرف نظر اٹھتی تو غیر کے نقائص پر ہی پڑتی تھی۔ سوچتے تھے کہ مخلوق میں تو عیوب ہیں اور عیوب سے پاک فقط ایک ہی ذات ہے، اس لیے بے اختیار زبان پر الحمدللہ آجاتا تھا اور سیدنا علیؓ کا تکیہ کلام سبحان اللہ تھا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کو مشاہدہ حق میں کمال تو حاصل تھا، لیکن اگر مخلوق کی طرف نظر اٹھتی بھی تو مخلوق کے کمالات پر پڑتی تھی، تو وہ بے اختیار سبحان اللہ کہتے تھے کہ اے کمال والے! تو خود کتنی عظمتوں والا ہے کہ تو نے مخلوق میں بھی ایسی صفات پیدا کر دی ہیں۔
حضرات خلفائے راشدینؓ کی ترتیب بھی اپنے مقام کی بلندیوں کے اعتبار سے ہے۔ سیدنا صدیق اکبرؓ سب سے پہلے خلیفہ ہیں اور اسلام بھی سب سے پہلے انہوں نے قبول کیا۔ یاد رکھئے جب سورج نکلتا ہے تو اس کی روشنی سب سے پہلے اس عمارت پر پڑتی ہے، جو سب بلند و بالا ہوتی ہے۔ اسی طرح جب نبوت کا سورج طلوع ہوا تو اس کی روشنی سب سے پہلے اس شخصیت پر پڑی جو اس امت میں سب سے بلند و بالا تھی۔ نبی اکرمؐ سے قرابت اور رشتہ داری کا معیار سامنے رکھا جائے تو بھی خلفائے راشدینؓ کی ترتیب آسانی سے سمجھ آ سکتی ہے۔ شرعاً و عرفاً سسر کا مرتبہ داماد کے مرتبے سے زیادہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ سسر باپ کی مانند اور داماد بیٹے کی مانند ہوتا ہے۔ سیدنا صدیق اکبرؓ اسلام میں بھی پہلے داخل ہوئے اور نبی اکرمؐ کے سسر بھی بنے، لہٰذا پہلے خلیفہ بنے۔ سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ دونوں داماد تھے، مگر عثمان غنیؓ کے نصیب میں حضور اکرمؐ کی دو بیٹیاں آئیں۔ اس لیے ذی النورین کہلائے۔ پس وہ تیسرے خلیفہ بنے، جبکہ علیؓ چوتھے خلیفہ بنے۔ (اسلاف کے حیرت انگیز واقعات)