حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ملک الموت نبی اکرمؐ کے پاس اس مرض میں حاضر ہوئے، جس میں آپؐ کا انتقال (پرملال) ہوا تھا تو انہوں (آنے کی) اجازت طلب کی، جبکہ آپؐ کا سر مبارک حضرت علیؓ کی گود میں تھا تو انہوں نے (آتے ہوئے) کہا ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔‘‘ تو حضرت علیؓ نے فرمایا واپس ہوجا، ہم تم سے بے توجہ ہیں تو حضرت سرور کائناتؐ نے فرمایا: اے ابوالحسن! (یہ حضرت علیؓ کی کنیت ہے) تو جانتا ہے یہ کون ہیں؟ یہ ملک الموت ہیں، انہیں احترام سے آنے دو۔ جب وہ تشریک لاچکے تو عرض کیا: آپ کا پروردگار آپ کو سلام فرماتا ہے تو آپؐ نے (ملک الموت سے) فرمایا: جبرائیل کہاں ہیں؟ عرض کیا وہ میرے قریب نہیں ہیں، ابھی حاضر ہونے کو ہیں، پس جب ملک الموت جانے لگے تو حضرت جبرائیلؑ تشریف لائے اور (ملک الموت سے) فرمایا جو ابھی دروازے میں ہی تھے، اے ملک الموت! آپ کو کس ضرورت نے باہر کیا؟ فرمایا حضرت محمدؐ آپ کو طلب فرماتے ہیں، پھر جب یہ دونوں (ملک الموت اور جبرائیل) بیٹھ گئے تو جبرائیل نے عرض کیا اے ابوالقاسم (یہ حضورؐ کی کنیت ہے) آپ پر سلام ہو، یہ آپ کی اور میری جدائی کی گھڑی ہے۔
(ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ) مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ملک الموت نے اس سے پہلے اہل بیت پر کبھی سلام نہیں کہا اور نہ ہی اس کے بعد کسی (عام وخاص بندے) پر سلام کہیں گے۔ (طبرانی)
(حدیث) حضرت حسینؓ سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیل جناب نبی اکرمؐ کی وفات کے روز نازل ہوئے اور عرض کیا آپ اپنے آپ کو کیسا پاتے ہیں؟ ارشاد فرمایا میں اپنے آپ کو غمزدہ اور رنجیدہ پاتا ہوں پھر ملک الموت نے دروازہ سے (آنے کی) اجازت طلب کی، تو جبرائیل نے
عرض کیا اے محمد! یہ ملک الموت ہیں آپ سے اجازت طلب کررہے ہیں انہوں نے آپ سے پہلے کسی آدمی سے اجازت طلب نہیں کی اورنہ ہی آپ کے بعد کسی آدمی سے اجازت طلب کریں گے۔ ارشاد فرمایا انہیں اجازت دیدیں تو انہوں نے اجازت دیدی۔ وہ آگے بڑھے اور آپؐ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور عرض کیا اللہ تعالی نے مجھے آپ کے ہاں بھیجا ہے اور حکم فرمایا ہے کہ آپ کی فرنبرداری کروں، اگر آپ مجھے حکم فرمائیں کہ آپ کی روح قبض کروں گا اور اگر آپ ناپسند فرمائیں تو نہیں کروں گا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا اے ملک الموت کیا ایسا کرلو گے؟ عرض کیا جی ہاں میں اسی کا حکم دیا گیا ہوں۔ حضرت جبرائیل نے آپؐ سے عرض کیا اللہ تعالی آپ سے ملاقات کا شوق رکھتے ہیں۔ تو آپؐ نے (ملک الموت سے) ارشاد فرمایا جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے انجام دے دو۔ (طبرانی (منہ) طبرانی کبیر 139/3، اتحاف السادہ 295/10، 296، جامع کبیر 347/2، کنز العمال 1882، بدائع المنن حدیث1820، مجمع الزوائد35/9)
(جاری ہے)