معارف القرآن

معارف و مسائل
فَاَعْرِضْ عَنْ مَّن… الخ، یعنی آپ ایسے لوگوں سے اپنا خیال ہٹا لیجئے، جو ہماری یاد سے رخ پھیر لیں اور دنیوی زندگی کے سوا ان کا کوئی مقصد نہ ہو، یہی ان کا انتہائی علم و ہنر ہے۔
ضروری تنبیہ:
قرآن کریم نے یہ ان کفار کا حال بیان کیا ہے، جو آخرت و قیامت کے منکر ہیں، افسوس ہے کہ انگریزوں کی تعلیم اور دنیا کی ہوا و ہوس نے آج کل ہم مسلمانوں کا یہی حال بنا دیا ہے کہ ہمارے سارے علوم و فنون اور علمی ترقی کی ساری کوششیں صرف معاشیات کے گرد گھومنے لگیں، معادیات (معاملات آخرت) کا بھول کر بھی دھیان نہیں آتا۔ ہم رسول اقدسؐ کا نام لیتے ہیں اور آپؐ کی شفاعت کی امید لگائے ہوئے ہیں، مگر حالت یہ ہوگئی کہ حق تعالیٰ اپنے رسولؐ کو ایسی حالت والوں سے رخ پھیر لینے کی ہدایت کرتا ہے۔ نعوذ باللہ منہ۔
اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُونَ… اس آیت میں ہدایت ربانی کی پیروی کرنے والے محسنین (نیک لوگوں) کا ذکر مقام مدح میں فرما کر ان کی پہچان یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ کبیرہ گناہوں سے عموماً اور فحش و بے حیائی کے کاموں سے بالخصوص دور رہتے ہیں، اس میں ایک استثنائ، بلفظ لمم فرمایا گیا ہے (جس کی تشریح آگے آتی ہے) اور حاصل استثناء کا وہی ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا کہ ان لوگوں کو جو محسن یعنی نیکوں کار کا خطاب دیا گیا ہے ، لمم میں ابتلا ان کو اس خطاب سے محروم نہیں کرتا۔
لَمَمَ کی تفسیر میں صحابہ و تابعین سے دو قول منقول ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں، جن کو سورئہ نساء کی آیت میں سیئات سے تعبیر فرمایا ہے، یہ قول حضرت ابن عباسؓ و ابوہریرہؓ سے ابن کثیرؒ نے نقل کیا ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ گناہ ہے جو انسان سے اتفاقی طور پر کبھی سرزد ہوگیا، پھر اس سے توبہ کرلی اور توبہ کے بعد اس کے پاس نہیں گیا، یہ قول بھی ابن کثیرؒ نے بروایت ابن جریرؒ اول حضرت مجاہدؒ سے نقل کیا ہے اور پھر ابن جریر ہی کی دوسری روایات میں یہ قول بواسطہ عطائؒ حضرت ابن عباسؓ سے اور بروایت حضرت حسن بصریؒ حضرت ابوہریرہؓ بھی نقل کیا ہے، اس کا بھی حاصل یہ ہے کہ کسی نیک آدمی سے کبھی اتفاقاً گناہ کبیرہ بھی سر زد ہوگیا اور اس نے توبہ کرلی تو یہ شخص بھی صالحین اور متقین کی فہرست سے خارج نہیں ہوگا، سورئہ آل عمران کی ایک آیت میں یہی مضمون بالکل واضح اور صریح آیا ہے، وہ یہ ہے کہ متقین کی صفات بیان کرنے کے ذیل میں فرمایا: ’’وہ لوگ بھی متقین ہی میں داخل ہیں جن سے کوئی فحش کبیرہ گناہ سرزد ہوگیا یا وہ گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے تو فوراً ان کو خدا کی یاد آئی اور اپنے گناہوں سے مغفرت مانگی اور خدا کے سوا گناہوں کو معاف بھی کون کرسکتا ہے اور جو کچھ گناہ ہوگیا تھا اس پر جمے نہیں رہے‘‘ اور یہ بھی جمہور علماء کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ جس صغیرہ گناہ پر اصرار کیا جائے اور اس کی عادت ڈال لی جائے وہ بھی کبیرہ ہو جاتا ہے ، اس لئے خلاصہ تفسیر مذکور میں لَمَمَ کی تفسیر ان صغیرہ گناہوں سے کی گئی ہے جس پر اصرار نہ کیا گیا ہو۔(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment