بھٹو ہاکی میچ تنازعے پر ارجنٹائن سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا

علی جبران
آج سے 46 برس قبل پاکستان نے محض ایک ہاکی میچ کے معاملے پر ارجنٹائن سے اپنے سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔ تاہم آج ناموس رسالتؐ جیسے حساس ایشو پر بھی حکومت اس طرح کا جرأت مندانہ قدم اٹھانے سے گریزاں ہے۔ سابق اولمپینز کا کہنا ہے کہ حضورؐ کی ناموس پر ان کی جان بھی قربان ہے اور یہ کہ موجودہ حکمرانوں کو اس معاملے پر، جو مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے، مصلحت اندیشی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ بلکہ گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ رکوانے کے لئے ہالینڈ کو انتہائی سخت ردعمل دینے کی ضرورت ہے۔
میونخ اولمپک 1972ء کے دوران ہاکی کے فائنل میں پاکستان کو مغربی جرمنی نے ایک صفر سے شکست دی تھی۔ تاہم مغربی جرمنی کا گول متنازعہ تھا۔ آج بھی اس میچ کو ہاکی کی تاریخ کا متنازعہ ترین میچ قرار دیا جاتا ہے۔ جب ارجنٹائن کے ریفری ہورا کیوسروٹیو نے ایک غلط گول کو درست قرار دے کر مغربی جرمنی کو فتح دلائی تو نہ صرف پاکستانی کھلاڑیوں نے میدان کے اندر شدید ردعمل کا اظہار کیا، بلکہ وکٹری اسٹینڈ پر سلور میڈل بھی گلے میں پہننے سے انکار کر دیا تھا۔ معروف سینئر اسپورٹس رپورٹر قمر احمد، جنہوں نے یہ میچ اسٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھا، بتاتے ہیں کہ جرمن ٹیم کے کپتان مائیکل کروس نے 60 ویں منٹ میں یہ متنازعہ گول کیا تھا۔ جسے پاکستانی کھلاڑیوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جبکہ قومی ہاکی ٹیم کے منیجر غلام رسول چوہدری کا خیال تھا کہ اولمپک فائنل میں پاکستان کو ہرانا ایک طے شدہ منصوبہ تھا۔ 1947ء سے لے کر 1972ء تک ہونے والے ہر اولمپک کا فائنل پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں جیتتی آ رہی تھیں۔ لہٰذا یورپ کو اولمپین ہاکی میں گولڈ میڈل کی اشد ضرورت تھی۔ قمر احمد کے بقول جب ایوارڈ کی تقریب کے موقع پر مغربی جرمنی کا قومی ترانہ بج رہا تھا تو پاکستان ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں نے احتجاجاً اپنی پشت جرمن جھنڈے کی طرف کر لی اور بعد ازاں سلور میڈل گلوں میں پہننے کی بجائے اپنے جوتوں میں ڈال لئے تھے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کے اس احتجاج نے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کو برہم کر دیا۔ پاکستانی ہاکی ٹیم پر تاحیات پابندی کا اعلان کیا گیا۔ بعد ازاں یہ پابندی کم کر کے دو برس کر دی گئی تھی۔
اولمپک کے سلور میڈل اپنے پائوں میں پہننے والے کھلاڑیوں میں کپتان اسد ملک کے علاوہ منور الزماں، اصلاح الدین، شہناز شیخ، اختر رسول، رشید جونیئر، جہانگیر بٹ، احمد ریاض، سعید انور، سلیم شیروانی، مدثر سید، زاہد شیخ اور دیگر شامل تھے۔ ان کھلاڑیوں میں سے ایک سپر اسٹار شہناز شیخ سے ’’امت‘‘ نے رابطہ کیا تو انہوں نے اس ایونٹ کی یادوں کو دہراتے ہوئے بعض ایسی آف دی ریکارڈ باتیں بھی شیئر کیں، جو اس سے قبل میڈیا میں نہیں آئیں۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے بتاتے چلیں کہ سمیع اللہ اور حنیف خان جیسے سابق اولمپین ہیروز نے ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح بھٹو نے محض ایک ہاکی میچ میں شکست پر قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ارجنٹائن سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا، موجودہ حکمرانوں کو چاہئے کہ اسی طرح وہ گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر ہالینڈ کے خلاف بولڈ سفارتی اسٹیپ اٹھائے۔ کیونکہ اس معاملے سے صرف پاکستانی نہیں، بلکہ تمام مسلم امہ کے جذبات وابستہ ہیں۔
’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستانی ہاکی کے لیجنڈ پلیئر سمیع اللہ کا کہنا تھا کہ 72ء میں ایک میچ کے معاملے پر حکومت اور قوم کا جوش و جذبہ قابل ذکر تھا اور اب بات ناموس رسالت کی ہے، جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے تو اس پر بالخصوص حکمراں وہ ردعمل دینے سے گریزاں ہیں، جو اس اہم ایشو پر دیا جانا چاہئے۔ ناموس رسالتؐ نہ صرف ہمارے ایمان بلکہ ہماری بقا کا معاملہ ہے۔ سمیع اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مجوزہ مقابلے کے خلاف پاکستان کو سفارتی سطح پر انتہائی شدید احتجاج کرنا چاہئے۔ سمیع اللہ کے بقول مغرب اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی سازش کرتا ہے۔ اگر تمام دنیا کے مسلمان ایک پیج پر آجائیں تو کسی کی جرأت نہیں کہ وہ ناموس رسالت پر کوئی منفی بات کرے۔
پاکستانی ہاکی کے ایک اور لیجنڈ کھلاڑی حنیف خان کا کہنا ہے کہ ہالینڈ کا ملعون رکن پارلیمنٹ جو قدم اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکے گا۔ حنیف خان کے بقول جب تک مسلمانوں میں اتحاد پیدا نہیں ہو گا اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس طرح کی گستاخیوں کے پیچھے پوری یہودی لابی ہے۔ میونخ اولمپک کے متنازعہ فائنل پر اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے ارجنٹائن سے سفارتی تعلقات توڑنے کے انتباہ کو یاد کرتے ہوئے حنیف خان کا کہنا ہے کہ ہالینڈ کے خلاف بھی حکومت پاکستان کو اسی طرح کا قدم اٹھانا چاہئے، تاکہ سامنے والے کو معلوم ہو کہ ہم بھی طاقت رکھتے ہیں اور یہ کہ ناموس رسالتؐ پر کسی قسم کی مصلحت قبول نہیں۔
میونخ اولمپک 1972ء میں پاکستان ہاکی ٹیم کا حصہ رہنے والے شہناز شیخ کا کہنا ہے کہ ’’ہماری جانیں بھی ناموس رسالتؐ پر قربان ہیں۔ گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے ہالینڈ کو جواب دینے میں حکمت اور بصیرت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے‘‘۔ 1972ء کے اولمپک کی یادوں کو دہراتے ہوئے 71 سالہ شہناز شیخ کا کہنا تھا کہ ’’ہاکی اس زمانے میں ہمارا اصل قومی کھیل ہوا کرتا تھا۔ ہاکی کو یہ درجہ 1948ء میں خود قائد اعظمؒ نے دیا تھا۔ 80ء کی دہائی تک پاکستانی قوم ایک قوم کی طرح رہی۔ 80ء کے بعد یہ افراد کا مجموعہ بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے ایک ہاکی جیسے کھیل میں بے ایمانی پر پاکستانی عوام ایک متحد قوم کی طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اب گستاخانہ خاکوں جیسے اہم ایشو پر بھی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اولمپک میں شرکت کے لئے جانے سے پہلے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پوری ٹیم سے خصوصی میٹنگ کی تھی۔ بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ وہ اندراگاندھی سے مذاکرات کرنے شملہ جا رہے ہیں۔ لہٰذا اولمپک میں بھارتی ہاکی ٹیم کو لازمی شکست دینی ہے، تاکہ وہ اپر ہینڈ لے کر شملہ جائیں۔ اس موقع پر بھٹو صاحب نے لائٹر موڈ میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر جیت کر آئے تو تم لوگوں کو مالا مال کر دوں گا۔ پھر جب اولمپک میں ہم نے بھارت کو شکست دی تو ذوالفقار علی بھٹو نے خصوصی پیغام دے کر نصرت بھٹو کو میونخ بھیجا۔ نصرت بھٹو نے ٹیم کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے شاباشی دی، اور بولیں، بھٹو صاحب نے کہا ہے کہ میرے بچوں کو میرا یہ پیغام یاد دلا دو جو میں نے انہیں پاکستان سے روانہ ہوتے وقت دیا تھا اور یہ کہ وہ وزیر اعظم کے اس بیان کا فالو اپ لے کر آئی ہیں۔ جب پاکستانی ٹیم فائنل میں پہنچی اور اس کے مدمقابل مغربی جرمنی کی ٹیم نے دھاندلی سے گول کر کے فتح حاصل کی تو مجھ سمیت سارے کھلاڑی سراپا احتجاج بن گئے۔ مغربی جرمنی کے حق میں فیصلہ دینے والے ارجنٹائن کے ریفری کو باور کرایا گیا کہ انہوں نے ایسے گول کو درست قرار دے دیا ہے جو لیگل نہیں۔ تاہم ارجنٹینی ریفری نے فیصلہ تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ تقسیم ایوارڈ کی تقریب سے پہلے ہماری مینجمنٹ نے تمام کھلاڑیوں کو کہہ دیا تھا کہ سلور میڈل گلے میں نہیں پہننا۔ یہ ایک طرح سے ہمیں دی گئی کھلی چھٹی تھی۔ چنانچہ ہم نے ہدایت پر عمل کیا۔ میڈل کی تقسیم کے وقت میں قطار میں پانچویں نمبر پر کھڑا تھا۔ مجھ سے پہلے کپتان اسد ملک اور دیگر چار کھلاڑی تھے۔ جب ان کھلاڑیوں کو میڈل دیا گیا توانہوں نے اس کے ساتھ منسلک زنجیر کو پکڑ کر میڈل انگلی میں گھمانا شروع کر دیا۔ ان کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی یہی عمل دہرایا اور پھر ٹیم کے تمام کھلاڑیوں نے ایسا ہی کیا کہ اپنی انگلی میں میڈل کو گھماتے رہے اور پھر نیچے گرا دیا۔ گرمی کے باعث ہم لوگوں نے جوتے اتار کر چپلیں پہن لی تھیں۔ میڈل نیچے گرانے کے بعد تمام پاکستانی ہاکی پلیئرز نے چپلیں اور میڈل ایک ساتھ ہاتھ میں اٹھائے۔ اس پر انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے شدید ردعمل دیا اور پاکستان ہاکی پر تاحیات پابندی کا اعلان کر دیا۔ تاہم بعد میں معافی تلافی پر یہ پابندی دو سال نہیں، بلکہ ایک سال کر دی گئی تھی‘‘۔ شہناز شیخ کے بقول ادھر پاکستان میں ایوارڈ کی تقریب سے پہلے جب ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معلوم ہوا کہ ارجنٹینی ریفری کی بے ایمانی کے سبب پاکستان فائنل ہار گیا ہے تو انہوں نے ارجنٹائن سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس وقت کے پاکستانی کمنٹیٹر حسن نقی مرحوم بھی اس شکست پر بہت جذباتی ہو گئے تھے۔ انہوں نے جس انداز سے ارجنٹینی ریفری کی بد دیانتی بیان کی اس نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی متاثر کیا۔ تاہم بعد میں جب بھٹو صاحب کو معلوم ہوا کہ پاکستانی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں نے ناقابل بیان شدید ردعمل دے کر حساب برابر کر دیا ہے تو انہوں نے ارجنٹائن سے سفارتی تعلقات توڑنے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔٭

Comments (0)
Add Comment