دوبڑے گدی نشین حکومت کو مہلت دینے کے حق میں ہیں

نمائندہ امت
پنجاب کے دو بڑے گدی نشین پیر سیال شریف اور پیر گولڑہ شریف ہالینڈ میں ہونے والے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے رکوانے کیلئے حکومت پاکستان کو مہلت دینے کے حق میں ہیں۔ دونوں پیر صاحبان گستاخانہ مقابلے کی شدید مذمت کر رہے ہیں اور حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں ممکنہ اقدامات کیلئے تیزی سے قدم آگے بڑھائے۔ لیکن ان کا یہ بھی موقف ہے کہ گزشتہ دس دنوں سے جب سے یہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے، اس نے یہ مقابلے رکوانے کے لئے پانچ چھ مثبت فیصلے کئے ہیں۔ سفارتکاری اور بین الاقوامی تعلقات اور معاملات چونکہ اہم معاملہ ہے، اس لئے حکومت کو مزید کچھ وقت دیا جانا چاہیے۔ اگر وہ سرد مہری دکھائے تو پھر احتجاج اور دھرنے دیئے جا سکتے ہیں اور نظام زندگی بھی معطل کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق پیر سیال شریف اور پیر گولڑہ شریف تحریک لبیک پاکستان کی احتجاجی ریلی کو سیاسی مہم جوئی سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ دونوں مشائخ نے تحفظ ناموس رسالت کے ایشو پر فیض آباد دھرنے میں تحریک لبیک کی حمایت کی تھی۔
پیر گولڑہ شریف پیر سید غلام نظام الدین جامی گیلانی نے تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے سے ولولہ انگیز اور کڑاکے دار خطاب بھی کیا تھا اور راجہ ظفر الحق رپورٹ عام کرنے سمیت تحریک لبیک کے تمام مطالبات کی بھی بھرپور حمایت کی تھی۔ اسی طرح پیر آف سیال شریف جو اُس وقت تک ناراضگی کے باوجود مسلم لیگ (ن) سے ہی وابستہ تھے، انہوں نے بھی تحفظ ناموس رسالت کے لئے دھرنے کے حق میں بیان جاری کیا اور ان کے پیروکار تین ایم این ایز اور چار ایم پی ایز نے اس ایشو پر مستعفی ہونے کا بھی اعلان کیا تھا۔ اب اس موقع پر یہ دونوں معروف گدی نشین تحریک لبیک کی ریلی کے حوالے سے بالکل خاموش ہیں۔ پیر صاحبان کے انتہائی قریبی معتبر ذرائع کے مطابق وہ گزشتہ ڈیڑھ ہفتے کی وفاقی حکومت کی اس بارے میں سرگرمیوں سے کسی حد تک مطمئن ہیں اور اسے مزید کچھ وقت دینا چاہتے ہیں۔
پیر سید غلام نظام الدین جامی گیلانی گزشتہ ماہ سے برطانیہ کے تبلیغی دورے پر ہیں۔ ان کے قریبی ذریعے کے مطابق ان کی واپسی اگلے ماہ یعنی ستمبر کی پندرہ تاریخ کے بعد ہو سکتی ہے، اس لئے ان کی جانب سے فوری طور پر تحریک لبیک کی احتجاجی ریلی کی حمایت کا امکان نہیں۔ اس ذیعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پیر صاحب موصوف نے 2018ء کے الیکشن میں عمران خان کی حمایت اس شرط پر کی تھی کہ جب بھی موقع آیا یا ضرورت پڑی، تحفظ ناموس رسالت کے لیے ان کی حکومت بھرپور کردار ادا کرے گی۔ نیز انہوں نے راجہ ظفر الحق رپورٹ جو اس وقت تک عام نہیں ہوئی تھی، اسے اوپن کرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کا ختم نبوت کے بارے میں اپنا عقیدہ بھی دو ٹوک الفاظ میں واضح کرنے کا کہا تھا، جو انہوں نے اسی وقت بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بیان کر دیا تھا۔ اس ذریعے کے مطابق موجودہ حکومت نے گزشتہ دس دنوں میں ہالینڈ کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا، سینٹ سے متفقہ قراردار منظور کرائی، وزیر اعظم عمران خان نے سینٹ میں اس ایشو پر حکومت کا موقف اور آئندہ کی حکمت عملی بیان کی، وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی نے ہالینڈ کے وزیر خارجہ کو خط لکھا، گزشتہ روز وفاقی مشیر بابر اعوان نے اسی سلسلے میں ترک سفیر سے ملاقات کی اور تمام اسلامی ممالک کو فوری طور پر متحد کرنے اور آئی سی اجلاس بلانے پر غور کیا۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن سے پیر گولڑہ شریف سمجھتے ہیں کہ ماضی کی حکومت کے برعکس موجودہ حکومت متحرک ہے اور اسے وقت دیا جانا چاہیے۔ جبکہ دوسری جانب تحریک لبیک اب ایک مذہبی جماعت نہیں، بلکہ سیاسی جماعت ہے، جس کا اپنا منشور اور ایجنڈا ہے اور اسی ایجنڈے کے تحت وہ فوری طور پر متحرک ہوئی ہے اور تحفظ ناموس رسالت کے ساتھ ساتھ اب اس کے سیاسی مقاصد بھی ہیں۔ جبکہ اکثر خانقا ہیں اور سجادہ نشیں تحریک لبیک کے سیاسی فلسفے اور سولو فلائٹ کے حامی نہیں اور ان کی اپنی اپنی سیاسی سوچ ہے۔ اگر حکومت اس ایشو پر غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہوتی تو وہ سب بھی میدان میں ہوتے۔
اسی طرح کے خیالات کا اظہار پیر سیال شریف کے قریبی ذرائع نے کیا۔ پیر صاحب صحت کی خرابی کی وجہ سے ان دنوں زیادہ وقت آرام کر رہے ہیں اور ان سے براہ راستہ رابطہ کافی مشکل ہے۔ انہوں نے تحفظ ناموس رسالت کے ایشو پر ہی نواز لیگ سے اختلاف کرتے ہوئے اس سے کئی دہائیوں پر مشتمل سیاسی رفاقت ختم کی تھی اور الیکشن 2018ء کے موقع پر پی ٹی آئی کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ پی ٹی آئی نے پیر آف سیال شریف خواجہ حمیدالدین سیالوی کے بھتیجے صاحبزادہ نعیم الدین سیالوی کو ٹکٹ جاری کیا تھا۔ لیکن وہ نون لیگ کے امیدوار کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے۔ پیر سیال شریف کے قریبی ذرائع کے مطابق پیر صاحب گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کی شدید الفاظ میں مذمت کر چکے ہیں اور حکومت پاکستان کو بھی انہوں نے پیغام دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے کسی صورت پہلو تہی نہ کرے۔ نگران حکومت کے برعکس موجودہ حکومت نے گزشتہ دس بارہ دن میں جو اقدامات اٹھائے ہیں اور نہ صرف یہ کہ وزیر اعظم نے خود پالیسی بیان سینیٹ میں دیا، بلکہ پاکستانی وزیر خارجہ نے ڈچ وزیر خارجہ سے بھی بات کی اور دیگر سفارتی چینل بھی متحرک کئے ہیں۔ اس لئے صرف یہ مطالبہ کہ ہالینڈ کے سفیر کو فوری طور پر نکالا جائے، مناسب نہیں ہے۔ اگر ہالینڈ کی حکومت یہ مقابلے نہ رکوائے تو پھر دیگر اسلامی ممالک بھی پاکستان کی کوششوں کی وجہ سے اپنے سفارتی تعلقات ہالینڈ سے منقطع کریں گے، جس کے زیادہ اثرات ہوں گے۔ اس لئے حکومت کو مزید دو ہفتے دینے چاہئیں۔ کیونکہ یہ ناپاک پروگرام نومبر میں ہے اور سفارتی کوششوں اور جدوجہد کے لیے ستمبر کا مہینہ موجود ہے۔
ذرائع کے مطابق پنجاب کے بڑے گدی نشیں جن میں پیر آف تونسہ شریف بھی شامل ہیں، حکومت کو کچھ وقت دینا چاہتے ہیں اور عجلت میں تحریک لبیک کی ریلی اور اس جدوجہد کو اس کی سیاسی حکمت عملی سمجھ کر اس سے فاصلہ اختیار کر رہے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment