امام احمد بن حنبلؒ کا فخر سے چلنا:
ابو عبداللہ محمد بن خزیمہ اسکندریؒ بیان کرتے ہیں کہ جب احمد بن حنبلؒ فوت ہوئے تو مجھے انتہائی شدید افسوس ہوا۔ میں نے انہیں خواب میں دیکھا کہ وہ اکڑ اکڑ کر چل رہے تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا: حضرت! یہ کیسی چال ہے؟ انہوں نے کہا: خدام، دارالسلام (جنت) میں اسی طرح چلتے ہیں۔ (میں نے پھر پو چھا:) حق تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
انہوں نے فرمایا: رب العزت نے مجھے بخش دیا۔ عزت والا بنا دیا اور مجھے سونے کے جوتے پہنائے گئے۔ حق تعالیٰ نے مجھ سے کہا: اے احمد! یہ تمہارے اس قول کا صلہ ہے جو تم کہتے تھے: ’’قرآن میرا کلام ہے‘‘ پھر حق تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا: اے احمد! مجھے ان دعاؤں کے ساتھ یاد کرو، جو تمہیں سفیان ثوریؒ کی طرف سے پہنچی ہیں اور جنہیں پڑھ کر تم مجھ سے میرا فضل و کرم مانگتے تھے۔ میں نے کہا: اے پروردگار! ہر چیز تیری قدرت کی وجہ سے ہے، تو ہر چیز کا رب ہے۔ تو میرے تمام گناہ بخش دے، حتیٰ کہ تو قیامت کے دن مجھ سے کسی چیز کے بارے میں کوئی مؤاخذہ نہ فرما۔ حق تعالیٰ نے کہا: اے احمد! یہ جنت ہے۔
اٹھو اور اس میں داخل ہو جاؤ۔ میں داخل ہوا تو دیکھتا ہوں سفیان ثوریؒ وہاں موجود ہیں۔ ان کے دو سبز پر ہیں، وہ ان پروں کے ذریعے ایک کھجور سے دوسری کھجور کی طرف اڑ رہے تھے اور یہ مقدس جملے پڑھ رہے تھے:
’’سب تعریف خدا کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا کہ ہم جنت میں سے جہاں چاہیں جگہ بنالیں، چنانچہ عمل کرنے والوں کا یہ اچھا اجر ہے۔‘‘ (الزمر 74:39)
اس نے کہا: میں نے بشر حافیؒ کے بارے پوچھا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ انہوں نے جواب دیا: ارے واہ! بشر کی طرح کون ہے؟ میں نے اسے بزرگی والے رب کے سامنے چھوڑ دیا۔ اس کے سامنے کھانے کا دسترخوان تھا۔ رب جلیل اس کی طرف متوجہ ہوئے، وہ فرمارہے تھے: کھائے جس نے کھایا نہیں اور پیے جس نے پیا نہیں۔ نعمت سے فائدہ اٹھالے جس نے اٹھایا نہیں۔ یا جس طرح حق تعالیٰ نے فرمایا۔ (البدایۃ والنہایۃ: 342/10)(جاری ہے)
٭٭٭٭٭