عبدالمالک مجاہد
اس کا علاقہ وہی تھا جہاں سلویٰ اور اس کی ساتھی لڑکیاں رہتی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ سلویٰ اب پہلے سے زیادہ فیشن ایبل ماحول میں ہے۔ اس کے پاس قیمتی گاڑی ہے۔ بڑا سا گھر ہے۔ نوکر اس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولتا اور بند کرتا ہے۔
عبد العزیز کو بڑا دکھ اور صدمہ ہوا، مگر وہ فوری طور پر کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ اس دوران امیر کبیر لوگوں سے سلویٰ کے تعلقات بڑھتے چلے گئے۔ اس کے گاہکوں میں اعلیٰ طبقے کے علاوہ خلیجی ممالک کے گاہک بھی شامل تھے۔ جدہ کا بہت بڑا بزنس مین سلویٰ کی زلفوں کا اسیر ہو گیا تھا۔
یہ نہایت امیر شخص تھا۔ مراکش کی حکومت ہر سال پولیس کے محکمے سے کچھ منتخب افراد کو حج کے لیے بھجواتی ہے۔ ان کے ساتھ سرکاری وفد بھی ہوتا ہے۔ اس سال حج کا وفد تشکیل پایا تو سرکاری وفد میں عبد العزیز کا نام بھی شامل کر لیا گیا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ وہ ارض مقدس جا رہا ہے تو اسے اپنی مرحومہ اہلیہ خوب یاد آئی۔ کاش! اس مقدس سفر میں وہ بھی میرے ساتھ شامل ہوتی۔ اپنی اہلیہ کو یاد کر کے وہ اداس ہو گیا۔ حج کا شوق ہر کلمہ گو کے دل میں ہوتا ہے۔ عبد العزیز اب حج کی تیاریوں میں مشغول تھا۔ بالآخر وہ دن بھی آن پہنچا جب وہ حج کے لیے مراکش سے جدہ کی طرف رواں دواں تھا۔
سلویٰ کے سعودی گاہک نے ایک دن سلویٰ سے کہا: اگر تمہیں پیسہ ہی درکار ہے تو میرے پاس جدہ آ جاؤ۔ وہاں تمہیں کتنے ہی امیر کبیر گاہک مل جائیں گے۔ طوائف کا ایمان پیسہ ہوتا ہے۔ سلویٰ نے غور و فکر کیا اور کہا: ٹھیک ہے تم مجھے ویزا بھجوا دو، میں جدہ آ جاؤں گی۔
وہ دن بھی آیا جب اس کے پاسپورٹ پر سعودی عرب کا ویزا لگ چکا تھا۔ اس کے سعودی گاہک نے کہا کہ تم بغیر ساز و سامان کے مختصر ترین سامان کے ساتھ جدہ آ جاؤ، وہاں ہر چیز مل جائے گی۔ جب تم ایئر پورٹ پر اترو گی تو ایئر پورٹ پر گاڑی تمہارا انتظار کر رہی ہو گی۔ فکر نہ کرنا تمہارے لیے ہوٹل بک ہو گا۔
ان ایام میں مراکش سے جدہ کے لیے حج پروازیں جا رہی تھیں۔ سلویٰ نے اپنا خوبصورت ترین لباس پہنا، خوب میک اپ کیا اور جہاز پر سوار ہو گئی۔ اس نے دیکھا کہ حج کی وجہ سے بیشتر مسافروں نے احرام باندھے ہوئے ہیں۔ وہ ان محدودے چند مسافروں میں سے تھی، جو حج کرنے نہیں جا رہے تھے۔ وہ تو اپنے خاص گاہک سے ملنے اور جدہ شہر میں فسق و فجور کا بازار گرم کرنے جا رہی تھی۔
اگلی سیٹوں پر بیٹھی تو اس کے ارد گرد حج پر جانے والی خواتین تھیں، جنہوں نے حجاب کیا ہوا تھا۔ کچھ دیر تو وہ کرسی کی پشت کی جیب میں رکھے ہوئے میگزین کے ساتھ کھیلتی رہی، پھر اس نے کھانا کھایا اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس کی آنکھ لگ گئی۔ نجانے وہ کب تک سوتی رہی۔ آنکھ کھلی تو جہاز کا پائلٹ اعلان کر رہا تھا کہ کچھ دیر بعد ہم لوگ میقات سے گزریں گے، جو مسافر حج کی نیت سے جدہ جا رہے ہیں، وہ اپنے احرام باندھ لیں۔ اعلان کے ساتھ ہوائی جہاز کے مسافروں میں ہلچل مچ گئی۔ وہ زور زور سے تلبیہ بلند کرنے لگے:
’’لَبَّیْکَ اللَّھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ‘‘
’’میں حاضر ہوں میرے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بلاشبہ ہر تعریف تیرے لیے اور ہر نعمت تیری ہی طرف سے ہے اور تیری ہی بادشاہت ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔‘‘
سلویٰ نے تلبیہ سنا تو اس کے جذبات میں بھی ہلچل مچ گئی۔ میں کہاں جا رہی ہوں۔ کس جگہ اور کیوں جا رہی ہوں؟ ایک انجانی قوت نے اسے سیٹ سے اٹھنے پر مجبور کر دیا۔ وہ تو سولہ سنگھار کر کے آئی تھی۔ اس نے قریب بیٹھی ہوئی خاتون سے کہا: تمہارے پاس کوئی فالتو کپڑے ہیں؟ اس نے اسے حیرت سے دیکھا اور پھر اسے فالتو کپڑوں کا ایک جوڑا تھما دیا۔ اب اس کا رخ واش روم کی طرف تھا۔ اس نے میک اپ اتارا، کپڑے تبدیل کر کے اپنی سیٹ پر آئی تو ایک خاتون نے اسے سفید مراکشی جلباب اور ٹوپی دے دی۔ اس نے اسے پہن لیا۔ میقات آئی اور گزر گئی۔ اب سلویٰ ایک نئے روپ میں تھی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭