نواب مرزا نے صرف دو دن میں غزل کہہ ڈالی

نواب مرزا نے دو ہی دن میں غزل کہہ لی اور اسے لے کر تیسرے دن مناسب وقت پر مرزا غالب صاحب کو سنانے پہنچ گیا۔
’’تو آپ نے غزل کہہ لی؟ بھئی کیا آمد ہے، واللہ۔ ذرا سنائیے تو سہی‘‘۔ مرزا غالب نے بہت خوش ہوکر اشتیاق کے لہجے میںکہا۔ داغ کے یہاں ان دنوں آمد ہی آمد تھی، معلوم ہوتا تھا شعر صف باندھے انتظار میں کھڑے ہیں۔ جرأت کی خاصی ٹھس زمین میں نو عمر شاعرنے بائیس شعر کہے تھے۔ مطلع یہ عشق کب دل خانہ خراب سے چھوٹابہشت میں بھی نہ میں اس عذاب سے چھوٹا ’’عذاب‘‘ کا قافیہ میاں جرأت کے یہاں بھی مطلعے میں تھا اور حق یہ ہے کہ نو عمر داغ نے کہنہ مشق اور میر و سودا کی آنکھیں دیکھے ہوئے استاد کو اس قافیے میں پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ بعض دوسرے شعر جن پر مرزا صاحب نے اپنی نگاہ تحسین سے صاد کیا، حسب ذیل تھے۔
نگاہ مست نے سرشار کر دیا مجھ کوشراب مجھ سے چھٹی میں شراب سے چھوٹانہ کیوں ہو رشک مجھے ایسے ملنے والوں پرنہ رنگ گل سے نہ نشہ شراب سے چھوٹابیان ان کے ہوں اوصاف داغ سے کیا کیاکوئی نہ وصف شہ بو تراب سے چھوٹامقطع تو معمولی تھا، لیکن مرزا غالب صاحب کے مذاق کا مضمون تھا، اس لئے انہوں نے خوب جم کر داد دی اور اتنے خوش ہوئے کہ اپنا پیچوان بطور اولوش عنایت کیا۔ داغ نے شرمندہ سی مسکراہٹ مسکرا کر انکار کیا تو شربت گڑ ہل منگا کر اصرار سے پلوایا، پھر ایک گلوری عطا کی۔ ایک آدھ شعر میں مرزا صاحب کسی ترکیب یا لفظ کو بدلنا چاہتے تھے، لیکن انہون نے کچھ کہا نہیں کہ کہیں یہ گمان نہ گزرے، میں اصلاح دے کر اپنا شاگرد کرنا چاہتا ہوں۔ داغ کے موجودہ، ذرا لڑکپن لئے ہوئے انداز مضمون آفرینی میں غالب کے لئے دلکشی تو بہت تھی، لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کی اپنی مضمون بندیاں اور خیال آفرینیاں اور طرح کی تھیں اور نو عمر کی مضمون یابی اور راہ سے تھی۔ اس کی طبیعت لطف زبان اور وقوعہ گوئی کی طرف زیادہ مائل تھی۔
نواب مرزا ڈرتا تھا کہ غالب صاحب کے پاس کہیں زیادہ دیر تک نہ بیٹھ جاؤں اور ان کے مزاج پر بار گزرے۔ لیکن غالب تھے کہ اجازت ہی نہ دیتے تھے۔ جب جب نواب مرزا اٹھنے کا ارادہ کرتا، مرزا صاحب اسے کچھ اور ثانیے بیٹھنے کو کہتے۔ داغ نے دل میں سوچا کہ مرزا صاحب اپنے ایک دو شعر ہی سنا دیتے، اتنی دیر سے بٹھائے ہوئے ہیں۔ داغ کا بہت جی چاہتا تھا کہ میں خود ہی مرزا صاحب سے شعر کی فرمائش کروں، لیکن اس کا ہیاؤ نہ کھلتا تھا۔ تیسری بار جب نواب مرزا یہ کہہ ہی رہا تھا کہ ’’حضور تھک گئے ہوں گے، اب بندے کو اجازت مرحمت ہو‘‘ کہ کلیان نے اوپر آکر کہا: ’’سرکار نواب ضیاء الدین خان بہادر تشریف لاتے ہیں‘‘۔
غالب گویا دوبارہ شگفتہ ہوگئے۔ ’’بھئی سبحان اللہ، خوب آئے میاں نیر‘‘۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’’آؤ تمہیں تمہارے ایک قرابت دار اور ہونہار شاعر سے ملائیں‘‘۔
اتنی دیر میں نواب ضیاء الدین احمد خان اندر آئے اور مرزا صاحب کو ایک تسلیم کر کے ان کے دائیں پہلو میں بیٹھ گئے۔ نواب مرزا نے سروقد کھڑے ہو کر دو تسلیمیں کیں اور باہر جانے کا دوبارہ ارادہ کیا، لیکن مرزا غالب نے اشارے سے کہا، بیٹھو۔ نواب صاحب مرزا اپنی پرانی جگہ پر، یعنی مرزا غالب کے کچھ بائیں جانب، لیکن ذرا آگے کو، بیٹھ گیا۔ ضیاء الدین احمد خان کا نام سن کر اس کے دل میں پھر بے چینی اٹھنے لگی تھی کہ خدا جانے میرا ان سے کیا معاملہ ہو، اور مرزا صاحب مجھے کس طرح ان سے متعارف کرائیں۔ لیکن اس کے یہ وسواس بھی بے اصل نکلے، کہ مرزا صاحب نے اپنی معمولی فراخ دلی اور مہمان نوازی اور موقع شناسی کو کام میں لاتے ہوئے دونوں سے یوں گفتگو کی گویا پرانے واقعات کا اب وجود بھی نہیں رہ گیا۔ اور یہ بات ایک حد تک صحیح بھی تھی۔
دہلی کے لوگ نواب شمس الدین احمد خان کو بھولے نہ تھے، لیکن ان کے بارے میں کھلے عام گفتگو بھی نہ کرتے تھے۔ ان کے مزار پر عرس اب کئی سال سے نہ ہوتا تھا، لیکن قدم شریف کے زوار کم و بیش ہمیشہ ہی نواب شہید کی قبر پر فاتحہ پڑھ لیا کرتے تھے۔ رؤسا کے ایک طبقے میں یہ خیال بھی متداول تھا کہ چھوٹی بیگم کے سقیم حالات کے پیش نظر ریاست لوہارو سے ان کے لئے وظیفہ مقرر ہوجاتا تو نا مناسب نہ تھا۔ نواب ضیاء الدین احمد خان بہادر بھی اسی خیال کے تھے اور وہ چھوٹی بیگم سے ملاقات کے بھی خواہاں تھے۔ چھوٹی بیگم کو لوہارو سے وظیفہ ملنے کی رائے کے موافق وہ اس لئے تھے کہ ان میں اور بڑے بھائی نواب امین الدین احمد خان میں مکمل صفائی اور ہم آہنگ نہ تھی۔ ضیاء الدین احمد خان کے خیال میں امین الدین احمد کا رویہ چھوٹے بھائی کے ساتھ غیر منصفانہ تھا اور انہیں ریاست کے محاصل و مراتب سے برابر کا حصہ نہ ملتا تھا، جس کے وہ بخیال خود حقدار تھے۔ دونوں بھائیوں کی عمروں میں خاصا تفاوت تھا، اور چھوٹے بھائی کے بقول اس تفاوت کے نتیجے میں باپ کی سی دلجوئی اور مہر ورزی کی جگہ امین الدین احمد ان کے ساتھ آمرانہ اور مستبدانہ رویہ رکھتے تھے۔ ضیاء الدین احمد خان نے کئی بار انگریز کے یہاں عرضی دی کہ ریاست دو حصوں میں منقسم کر دی جائے تاکہ ہم دونوں اپنی اپنی جگہ آزاد ہوجائیں۔ لیکن یہ درخواستیں نا منظور کردی گئی تھیں۔ اب ضیاء الدین احمد کا مطالبہ تھا کہ میرے حصے کی آمدنی مجھے براہ راست مل جایا کرے اور اس کے لئے مجھے ریاست لوہارو کا دست نگر نہ رہنا پڑے۔ یہ عرضی ابھی صاحب گورنر جنرل بہادر کے دربار کلکتہ میں زیر غور تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment