عباس ثاقب
سچن بھنڈاری کی عاجزانہ درخواست آرتی کو ذرا بھی متاثر نہ کر سکی۔ اس نے ٹھیٹھ گجراتی میں سچن کی نوکری کو بھاری بھرکم گالی دی اور کہا کہ یہ معمولی نوکری ویسے بھی سیٹھ پاٹھک لال کی اکلوتی بیٹی کے شوہر کے شایانِ شان نہیں، چنانچہ وہ اس پر لعنت بھیج دے اور احمد آباد میں اپنے لکھ پتی سسر کا کاروبار سنبھالنے کی تیاری کرے۔
سچن مسلسل منت سماجت کر رہا تھا کہ وہ فی الحال اکیلی اپنے میکے چلی جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اسے کل شام کی ٹرین میں بٹھا دے گا اور چند دن میں وہ بھی چھٹی لے کر احمد آباد پہنچ جائے گا۔ لیکن عین اس وقت، جب وہ سر توڑ کوشش کر کے آرتی سے اپنی بات منوانے میں کامیاب ہونے والا تھا، بدبختی نے اسے آن لیا۔ اسے اچانک کھانسی کا دورہ پڑا، جس کے دوران اسے ابکائی آئی اور اس نے منہ بھرکے الٹی کر دی۔ اس کے پیٹ سے منہ کے راستے خارج ہونے والے ملغوبے میں اتنی شدید بدبو تھی کہ کئی فٹ دور موٹے پردے کے پیچھے چھپا ہونے کے باوجود میں ناک بند کرنے پر مجبور ہوگیا۔
اس کے ساتھ خواب گاہ میں گویا بھونچال آگیا۔ آرتی کے حلق پھاڑکر چیخنے سے مجھے لگا کہ شاید وہ اس قے کی زد میں آئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے کراہت آمیز لہجے میں سچن پر لعنت ملامت کی بارش کر دی۔ اس کے ساتھ ہی وہ مسہری سے اترکر غسل خانے کی طرف دوڑی۔ ’’اوغ اوغ‘‘ کی بلند آوازوں سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ مسلسل الٹیاں کر رہی ہے۔ ادھر بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار سچن گھگھیائے لہجے میں اس سے مسلسل معافی مانگ رہا تھا۔ اس دوران میں اس نے قے میں لتھڑا لحاف لپیٹ کر ایک طرف ڈال دیا تھا۔
خاصی دیرکے بعد کوئی درجن بھر الٹیاں اور متعدد بار کلیاں اور غرارے کرنے کے بعد آرتی غسل خانے سے باہر آئی تو مجھے وہ نڈھال سی دکھائی دی۔ تاہم اس کے غیظ و غضب میں اب بھی شعلوں کی سی تپش تھی۔ باہر نکلتے ہی ایک بار پھر گاڑھی گجراتی میں اس کی خبر لینا شروع کردی ۔ خاص بات یہ تھی کہ وہ اب سچن کو ایک اور، زیادہ سنگین حوالے سے آڑھے ہاتھوں لے رہی تھی۔
’’میں نے تمہیں آخری وارننگ دی تھی کہ آئندہ ایسی حرکت کی تو میں تمہیں ٹھڈے مار کر گھر سے نکال دوں گی۔ اس کے باوجود تم نے شراب لاکر میرے گھر کو اپوتر (ناپاک) کیا، بلکہ سخت ترین پابندی کے باوجود گھر میں شراب پی کر میرے اعتماد کو دھوکا دیا۔ اب میں تمہارا وہ حشر کروں گی کہ عمر بھر یاد رکھو گے‘‘۔
سچن نے پہلے تو قسم کھاکر اپنی معصومیت کا یقین دلانے کی کوشش کی، لیکن پھر کمرے کی فضا بری طرح مکدر کرتی شراب کی بدبو کی موجودگی میں اپنی پوزیشن ناقابلِ دفاع پاکر اس نے تسلیم کرلیا کہ واقعی اس سے شراب پینے کی ’’غلطی‘‘ سرزد ہوگئی ہے، جس پر وہ معافی کا طلب گار ہے۔ ساتھ ہی اس نے اپنے جرم کی شدت اور آرتی کی اصل شکایت کی سنگینی کم کرنے کے لیے بتایا کہ اس نے آرتی کے حکم کی خلاف ورزی ہرگز نہیں کی۔ یعنی وہ شراب گھر لایا ہے اور نہ ہی اس نے یہاں مے نوشی کے گناہ کا ارتکاب کر کے گھر کو پلید کیا ہے۔ بلکہ وہ نشے کی طلب پوری کرنے کے لیے کولابا کے ایک شراب خانے گیا تھا۔
اس کی تاویل سن کر آرتی کا غصہ کچھ کم ہوا، لیکن چند ہی لمحوں میں وہ ایک نئے زاویے سے برس پڑی ’’تمہیں مجھے اتنی رات کو گھر میں اکیلا چھوڑ کر آوارہ گردی کے لیے باہر جانے کی جرأت کیسے ہوئی؟ تمہیں پتا ہے رات کے وقت گھر میں تنہا ہوں تو مجھے ڈر لگتا ہے؟ اگر تمہاری غیر موجودگی میں کوئی چور ڈاکو گھر میں گھس آتا تو؟ سب کو پتا ہے میرے پتا نے آدھا سیر سونے کے زیورات جہیز میں دیئے ہیں؟‘‘۔
سچن کے پاس معافی مانگنے اور یہ ظاہر کرنے کے علاوہ کوئی دفاع نہیں تھا کہ وہ صرف آدھے گھنٹے کے لیے گھر سے باہر گیا تھا۔ اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے ساتھ وعدہ بھی کیا کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کرے گا۔ لیکن وہ شاید پہلے بھی اپنی بیوی سے جھوٹ بولتا رہتا تھا، لہٰذا آرتی نے اس کی معافی پر کان دھرے نہ غلطی کا ارتکاب نہ کرنے کے وعدے کو تسلیم کیا، بلکہ شراب نوشی کی جگہ ایک نئے شک نے لے لی ’’مجھے تو لگ رہا ہے تم میری گہری نیند کا فائدہ اٹھاکر کسی جسم فروشی کے اڈے پر گند میں منہ مارنے گئے تھے۔ وہیں تم نے شراب و کباب کے ساتھ کسی ویشیا (جسم فروش عورت) کے ساتھ منہ کالا کیا ہوگا‘‘۔ آرتی کے لہجے میں اتنا یقین تھا کہ چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق سچن بری طرح گڑبڑا گیا اور لگ بھگ روتے ہوئے اپنی پاک دامنی کا یقین دلانے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن آرتی اتنی آسانی سے ہار ماننے والی نہیں تھی ’’مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش نہ کرو۔ میں تمہیں پہلے بھی دو بار رنگے ہاتھوں پکڑ چکی ہوں۔ یاد ہے پچھلی بار میں نے وارننگ دی تھی کہ یہ تمہارے لیے آخری چانس ہے۔ لیکن کتے کی دم کی طرح، تم بھی سیدھے ہونے والے نہیں ہو۔ اب مزا چکھنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اب میں کبھی پلٹ کر اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی‘‘۔
حتمی لہجے میں سنایا گیا آرتی کا یہ فیصلہ سچن پر گویا بجلی بن کر گرا۔ وہ کسی چوٹ کھائے کتے کی طرح بلبلاتے ہوئے آرتی کو یقین دلانے کی کوشش میں لگ گیا کہ اس کا شک بے بنیاد ہے ۔ ’’اپنے سورگباشی ماتا پتا کی سوگند کھاکر کہتا ہوں، میں صرف کولابا مارکیٹ کے دارو کے اڈے پر گیا تھا۔ یقین نہ آئے تو میرے ساتھ چلو۔ میری پنکچر کار ابھی تک وہیں کھڑی ہے۔ میں تو آٹو میں گھر تک آیا ہوں‘‘۔
اس کی بات شاید آرتی پر کچھ اثرا نداز ہوئی تھی۔ وہ غالباً اس کے دعوے کی تصدیق کے لیے خواب گاہ سے باہر نکلی۔ اس نے شاید اوپری منزل کی گیلری سے دیکھ لیا ہوگا کہ واقعی کار گھر کے احاطے میں موجود نہیں ہے۔ چنانچہ وہ واپس لوٹی تو اس کے غصے کی شدت خاصی ماند پڑگئی تھی۔ اس نے سخت لہجے میں سچن کو تنبیہ کی کہ اگر آئندہ اس طرح کی کوئی بے اعتدالی کی تو وہ واقعی اس پر لعنت بھیج کر ہمیشہ کے لیے اپنے پتا کے گھر چلی جائے گی۔
رفتہ رفتہ خواب گاہ کا ماحول پرسکون ہوگیا۔ قے والے لحاف کو کمرے سے نکال پھینکنے کے بعد وہاں پھیلی بدبو بھی معدوم ہوگئی۔ سچن تو پہلے ہی نیند سے نڈھال تھا، آرتی بھی نئے لحاف میں چند بار کروٹیں بدلنے کے بعد سو گئی۔ میں شاید گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے پردے کی آڑ میں پوشیدہ رہا تھا۔ بالآخر ان کی نیند گہری ہونے کا اطمینان ہونے پر میں اپنی کمیں گاہ سے نکلا اور ان دونوں پر نگاہ رکھتے ہوئے بے آواز قدموں سے خواب گاہ کے دروازے کی طرف بڑھا۔ باہر نکلنے سے پہلے میں نے آخری بار اس عجیب و غریب جوڑے کا جائزہ لیا۔ وہ بدستور میٹھی نیند کے مزے لے رہے تھے۔ میں نے لٹو گھماکر احتیاط سے دروازہ کھولا اور اسی بے آواز انداز میں بند کر کے زینے کی طرف بڑھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭