حکومتی وفد آخری بات چیت میں بھی تحریک لبیک سے مہلت مانگتا رہا

محمد زبیر خان/ مرزا عبدالقدوس
تحریک لبیک کے لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کے دوران حکومتی وفد اور ٹی یل پی کے درمیان مذاکرات کے کم از کم تین دور چلے، جن میں حکومتی وزرا اسلام آباد کی جانب مارچ اور اعلان کردہ دھرنا ملتوی کرنے کی درخواست کرتے رہے اور مزید وقت مانگتے رہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے آخری بات چیت میں بھی ہالینڈ کے سفیر کو ملک بدر کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی تھی بلکہ ان کا زور مارچ اور دھرنا ختم کرانے پر رہا۔ جس وقت وزیر خارجہ تحریک لبیک کے سرپرست پیر محمد افضل قادری سے مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے، تو گستاخانہ خاکوں کی منسوخی کی اطلاع آئی، جسے شاہ محمود قریشی نے اپنی حکومت کی سفارتی کامیابی قرار دیتے ہوئے حاضرین کو مبارک باد دی۔ لیکن تحریک لبیک کی قیادت نے رات ساڑھے تین بجے تک اس وقت تک ریلی ختم کرنے کا اعلان نہ کیا جب تک کہ ان کو مختلف آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوگئی۔ داتا دربار لاہور سے مورگاہ راولپنڈی تک کے تینتیس گھنٹے کے سفر میں علامہ خادم حسین رضوی کنٹینر پر موجود رہے اور یہ وقت انہوں نے کرسی پر بیٹھ کر کارکنوں کی نظروں کے سامنے گزارا۔ درجنوں مقامات پر مختصر خطابات بھی کئے۔ شرکا کے دلوں میں موجود عشق مصطفیٰ کو مزید جلا بخشنے کے لیے نعرے بھی لگوائے اور خود بھی لگائے۔ لیکن زیادہ وقت انہوں نے تسبیحات پڑھنے میں گزارا، جن میں خاص طور پر درود شریف شامل ہے۔ اس دوران وہ دعا بھی کراتے رہے کہ یہ گستاخانہ مقابلے کرانے والے اپنے منصوبوں میں ناکام ہوں اور نبی کریم کی شان میں گستاخی کرنے کی انہیں جرات ہی نہ ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اور عاشقان رسول یہ دعا قبول کر لی اور ملعون گیرٹ ولڈرز نے خوف زدہ ہوکر خود ہی مقابلے منسوخ کر دیئے۔
29 اگست کو داتا دربار لاہور سے لبیک یا رسول اللہ مارچ شروع ہوتے ہی تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ تحریک لبیک نے مذاکرات کی ہر حکومتی دعوت پر وقت دیا اور اپنی ٹیم کو بات چیت کیلئے بھیجا۔ ٹی ایل پی رہنمائوں نے حکومتی وفود کے ساتھ مذاکرات میں یہی مطالبہ رکھا کہ ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ رکوایا جائے یا ڈچ سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق لاہور میں احتجاجی ریلی سے ایک روز قبل پنجاب حکومت کے وزیر قانون بشارت چوہدری نے مذاکرات کی دعوت دی تھی، جسے تحریک لبیک کے امیر خادم حسین رضوی نے مسترد کر دیا تھا اور پیغام بھجا تھا کہ یہ معاملہ صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ صوبائی حکومت کو وقت دینے کیلئے تو تیار ہیں، مگر اس موضوع پر اس سے بات کرنے کا فائدہ نہیں ہوگا۔ جس کے بعد حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کو لاہور بھیجا گیا، جنہوں نے مذاکرات کئے۔ اس بات چیت میں تحریک لیبک کی جانب سے پیر افضل قادری، شیخ اظہر، وحید نور اور دیگر شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق نورالحق قادری نے لاہور میں ٹی ایل پی کے وفد کو عمران خان کو پیغام دیاکہ حکومت گستاخانہ خاکوں پر امت مسلمہ اور پاکستان کے جذبات سے آگاہ ہے اور اس پر ہر قسم کے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ باضابطہ طور پر حکومت ہالینڈ سے بھی رابطہ کرلیا گیا ہے اور اس کے بعد اقوام متحدہ اور اسلامی تنظیم سے بھی رابطہ کیا جائے گا۔ اس لئے تحریک لبیک کچھ دن کی مہلت دے۔ ذرائع کے بقول اس موقع پر تحریک لبیک نے مطالبہ رکھا کہ ہالینڈ میں مقابلوں کو رکوایا جائے یا پھر سفیر کو ملک بدر کیا جائے اور اپنا سفیر پاکستان واپس بلایا جائے۔ اس پر نورالحق قادری کوئی واضح جواب نہ دے سکے اور تحریک لبیک نے اسلام آباد کی جانب مارچ ختم کرنے سے انکار کردیا اور لاہور سے قافلہ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے راستے میں بھی کوشش کی گئی کہ تحریک لبیک کی قیادت کو مذاکرات میں انگیج کیا جائے اور کسی طرح سے مارچ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہوجائے۔ مگر تحریک لبیک کی قیادت نے ہر موقع پر دو ٹوک پیغام دیا کہ انہوں نے مطالبات پیش کر دیئے ہیں، جو مان لئے گئے تو وہ واپس چلے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق غیر متوقع طور پر جب جہلم میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو اس موقع پر حکومت کی جانب سے مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی۔ لیکن اس وقت بھی حکومت کو جواب دیا گیا کہ پہلے جہلم کراس کرلیں، پھر اس کے بعد مذاکرات کریں گے۔ اس موقع پر راولپنڈی ڈویژن کے انتظامی اور پولیس افسران نے بھی تحریک لیبک کی قیادت سے بات کرنے کی کوشش کی، جو ناکام رہی۔ ذرائع کے مطابق جہلم کراس کرنے کے بعد نورالحق قادری نے دوبارہ رابطہ قائم کیا تو انہیں جواب دیا گیا کہ اب تو صرف دو ٹوک مذاکرات ہی ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی دو ٹوک بات ہے تو حاضر ہیں ورنہ مشکل ہوگا۔ اسی موقع پر تحریک لبیک کی قیادت کو دعوت دی گئی کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر ایک بریفنگ دینا چاہتے ہیں۔ ٹی ایل پی کے قائدین اس بریفنگ کو سن لیں۔ اس پر تحریک لبیک کی قیادت نے آمادگی ظاہر کردی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس بات چیت میں شاہ محمود قریشی، وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی، وزیر مذہبی امور نورالحق قادری اور دیگر حکام موجود تھے۔ تحریک لبیک کی جانب سے ایک بار پھر قیادت پیر افضل قادری کر رہے تھے۔ بات چیت شروع ہوتے ہی تحریک لبیک کے وفد نے جہلم میں پیش آنے والے واقعے پر توجہ دلائی تو شہر یار آفریدی نے موقف اختیار کیا کہ جہلم میں روکنے کا اقدام پنجاب حکومت کا تھا اور یہ صوبائی حکومت نے بعض انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنا پر کیا تھا، اس کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ شہریار آفریدی نے اس موقع پر تحریک لیبک کے قائدین کو یقین دہانی کرائی اور بتایا کہ وزارت داخلہ نے پہلے ہی روکے جانے کے واقعے پر تحقیقات کا کہہ دیا ہے او متعلقہ افسران سے جواب بھی طلب کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے تحریک لبیک کے رہنمائوں کو حکومتی کوششوں پر مکمل بریفنگ دی اور بتایا کہ حکومت پہلے ہی یہ معاملہ ہالینڈ کے ساتھ اٹھا چکی ہے اور اس پر احتجاج بھی کرچکی ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر کو سرکاری طور پر خط لکھ دیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے کر جانے کی تیاری کریں۔ اسی طرح اسلامی تنظیم کا اجلاس بلانے کی کوششوں سے بھی آگاہ کیا۔ ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی بریفنگ دینے کے دوران بھی اور بعد میں بھی یہی کہتے رہے کہ حکومت کو مزید مہلت دی جائے اور لانگ مارچ اور دھرنا ختم کر دیا جائے۔ تاہم تحریک لبیک کے رہنما اپنے اصولی موقف پر قائم رہے کہ یہ لانگ مارچ اور دھرنا ہر صورت اسلام آباد جائے گا اور یہ اس صورت میں ختم ہوگا جب ہالینڈ میں یہ مقابلے منسوخ ہوجائیں یا ہالینڈ کے سفیر کو ملک بدر کردیا جائے۔ ذرائع کے مطابق قریب تھا کہ تحریک لبیک کے قائدین ایک بار پھر مذاکرات کی ناکامی کے بعد واپس چلے جاتے کہ وہاں کچھ ایسی اطلاعات پہنچنا شروع ہوئیں کہ ہالینڈ میں منعقدہ مقابلے منسوخ کر دیئے گئے ہیں ۔
مذاکرات کے عمل میں شریک رہنے والے اور تحریک لیبک کے مرکزی رہنما شیخ اظہر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ لاہور سے مارچ کا اعلان ہونے کے بعد ہی حکومتی سطح پر براہ راست اور دیگر ذرائع سے رابطے قائم ہونا شروع ہوگئے تھے اور کہا جارہا تھا کہ حکومت اس معاملے پر سب کچھ کرنے کو تیار ہے، بس دھرنا اور مارچ ختم کیا جائے ۔ جبکہ تحریک لبیک کی شوریٰ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ مطالبات میں سے کوئی ایک مطالبہ پورا ہوئے بغیر دھرنا اور مارچ ملتوی یا منسوخ نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’وفاقی وزیر نورالحق قادری سے لے کر وزیر خارجہ تک سب سے یہی دو مطالبات رکھے اور سب نے حکومتی سطح پر یہ موقف رکھا کہ ہالینڈ میں سرکاری سطح پر یہ مقابلے نہیں کروائے جارہے، اس لئے حکومت سفیر کو بے دخل نہیں کر سکتی اور نہ سفارتی تعلقات ختم کئے جائیں گے۔ حکومتی وفود وقت اور مہلت مانگتے رہے۔ مگر تحریک لبیک فیصلہ کرچکی تھی اور یقینی طور پر پوری دنیا نے ہمارے موقف کو سنا اور ہماری سرگرمیوں کو مانیٹر کیا۔ جس کے بعد اللہ کے حکم سے کامیابی ملی اور پوری دنیا بالخصوص اسلامی دنیا میں پاکستان کے مسلمانوں کا وقار بلند ہوا‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’پنڈی پنجاب ہائوس میں ہم مذاکرات ختم کرکے واپس آرہے تھے کہ یہ اطلاعات ملنا شروع ہوگئیں کہ مقابلے منسوخ ہوگئے ہیں، جس کی تصدیق ہم نے اپنے ذرائع سے بھی کروائی اور پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس کی تصدیق کردی۔ لیکن اگر مقابلے منسوخ نہ ہوتے تو ہالینڈ کے سفیرکی بے دخلی کے بغیر احتجاج ختم نہیں کیا جاتا‘‘۔
تحریک لبیک کی ریلی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب تقریباً بارہ بجے راولپنڈی شہر میں تینتیس گھنٹے کا سفر کر کے پہنچی تھی۔ ریلی کے شرکاء کا بھرپور والہانہ استقبال گل پاشی سے ہوا۔ رات کے کھانے کا بھی یہیں بندوبست کیا گیا تھا۔ حاضرین نے کھانا کھایا۔ اس دوران پیر محمد افضل قادری کے سرکاری ٹیم سے مذاکرات ہوئے۔ شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری ، وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور صوبائی وزیر پارلیمانی امور محمد بشارت راجہ پر مشتمل تھی۔ جبکہ تحریک لبیک کی جانب سے پیر محمد افضل قادری سربراہی کر رہے تھے۔ ان مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران یہ خبر ملی کہ ہالینڈ میں یہ مقابلے منسوخ ہوگئے ہیں، جس پر سرکاری ٹیم جس کو ریلی فوری طور پر ختم کرنے کے حوالے سے کوئی کامیابی نہیں ملی، بہت خوش اور مطمئن ہوگئی۔ تحریک لبیک کی قیادت نے بھی اطمینان کا اظہار کیا۔ لیکن اس وقت تک کوئی اگلا فیصلہ کرنے سے گریز کیا گیا جب تک دیگر ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوگئی۔ وزرا کچھ دیر بعد روانہ ہوگئے، جبکہ ریلی کے شرکا نے ساری رات جاگ کر گزاری۔ اس دوران درود شریف، نعتوں اور پرجوش نعروں کا سلسلہ جاری رہا۔ تین بجے اختتامی خطابات کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب مستند اور آزاد ذرائع سے تصدیق ہو گئی کہ مقابلے منسوخ ہوگئے، تو تحریک کی مرکزی شوریٰ نے علامہ خادم حسین رضوی کی زیر صدارت اجلاس میں ریلی ختم کرنے کا اعلان کیا۔
پیر محمد افضل قادری نے اپنے خطاب میں اس نئی پیش رفت سے شرکا کو آگاہ کیا اور ریلی کے شرکا کو مبارک باد پیش کی کہ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں ہی انہیں یہ بڑی کامیابی ملی ہے۔ انہوں نے وفاقی وزرا کے ساتھ اپنے مذاکرات کی تفصیل پر بھی روشنی ڈالی اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مذاکرات کے دوران سرکاری ٹیم عاشقن رسول کے موقف کی حمایت کے بجائے ایسے دلائل دے رہی تھی جیسے کہ وہ ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کرانے والوں کی ترجمان اور نمائندہ ہو۔ پیر محمد افضل قادری نے کہا کہ ’’ہمارے موقف کی ترجمانی یا ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ہمارے وزرا کچھ اور ہی موقف بیان کر رہے تھے، جس پر ہمیں شدید افسوس ہے‘‘۔ انہوں نے شرکا کو علامہ خادم حسین رضوی کے خطاب کے بعد پر امن طور پر منتشر ہونے کی ہدایت کی اور تلقین کی کہ نماز جمعہ کے بعد شکرانے کے نوافل پڑھیں اور اس عظیم الشان کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ تقریباً چار بجے کے قریب علامہ خادم حسین رضوی کا خطاب شروع ہوا۔ ان کے خطاب کے دوران ہی تقریباً سوا چار بجے راولپنڈی کی فضائیں اذان فجر سے گونج اٹھیں۔ اذان کے دوران وقفے کے بعد انہوں نے دوبارہ خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ یہ مقابلے حکومت سفارتی ذرائع کے ذریعے منسوخ کرائے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتی تو ہالینڈ کے سفیر کو واپس بھیجا جائے۔ اسی مقصد کیلئے سب لوگ یہاں تک پہنچے ہیں۔ ہمارا مقصد ماحول کو خراب کرنا نہیں، بلکہ تحفظ ناموس رسالت کے لیے جدوجہد تھا، جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کے صدقے ہمیں کامیابی عطا فرمائی ہے۔ جس پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں اور اب دعائے خیر کرکے پرامن طریقے سے واپس جارہے ہیں۔ یہ ہمارے فخر کے ساتھ شکر گزاری کا بھی موقع ہے کہ ہمیں کامیابی ملی اور اس عظیم الشان کام کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ خدمت لی۔ لیکن آپ لوگ اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ نہ جائیں۔ یہود و نصاریٰ اور قادیانی اپنی سازشوں سے باز نہیں آئیں گے۔ اگر خدا نخواستہ دوبارہ ایسی صورتحال پیدا ہو اور آپ کو کال کی جائے تو اس پر فوراً لبیک کہیں۔ اسلام کی سربلندی کیلئے کام کریں۔ ناموس رسالت کا تحفظ ہماری زندگیوں کا مقصد اور مشن ہے، جو جاری رہے گا۔ اگر اس عظیم مقصد پر جان چلی جائے تو ایک سچے مومن کو اس کے علاوہ اور کیا چاہئے اور اس مقصد کے بعد شہادت کے علاوہ کسی کی اور بڑی خوش نصیبی کیا ہو سکتی ہے‘‘۔ بعض شرکا جو کنٹینر اور بسوں پر آئے تھے، علامہ خادم حسین رضوی نے انہیں ہدایت کی کہ اگر ان میں سے کسی کے پاس کرایہ نہ ہو تو وہ تحریک کے سیکریٹری مالیات سے ابھی وصول کر لیں، تاکہ راستے میں پریشانی نہ ہو۔ اسی طرح انہوں نے انتظامیہ کو واپسی کیلئے زادراہ دینے کا حکم جاری کیا۔ علامہ خادم حسین رضوی، پیر اعجاز اشرفی، پیر زبیر قصوری اور دیگر قائدین نے نماز فجر راولپنڈی میں ادا کرنے کے بعد نماز جمعہ لاہور پہنچ کر پڑھی۔ جبکہ پیر محمد افضل قادری اپنے ضلع گجرات واپس چلے گئے۔ واپس روانگی سے پہلے تمام شرکا کو راولپنڈی میں ناشتہ کرایا گیا۔
داتا دربار لاہور سے مورگاہ راولپنڈی تک کے تینتیس گھنٹے کے سفر میں علامہ خادم حسین رضوی کنٹینر پر موجود رہے اور یہ وقت انہوں نے کرسی پر بیٹھ کر
کارکنوں کی نظروں کے سامنے گزارا۔ درجنوں مقامات پر مختصر خطابات بھی کئے۔ شرکا کے دلوں میں موجود عشق مصطفیٰ کو مزید جلا بخشنے کے لیے نعرے بھی لگوائے اور خود بھی لگائے۔ لیکن زیادہ وقت انہوں نے تسبیحات پڑھنے میں گزارا، جن میں خاص طور پر درود شریف شامل ہے۔ اس دوران وہ دعا بھی کراتے رہے کہ یہ گستاخانہ مقابلے کرانے والے اپنے منصوبوں میں ناکام ہوں اور نبی کریم کی شان میں گستاخی کرنے کی انہیں جرات ہی نہ ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اور عاشقان رسول یہ دعا قبول کر لی اور ملعون گیرٹ ولڈرز نے خوف زدہ ہوکر خود ہی مقابلے منسوخ کر دیئے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment