بس اتنی دعا کافی ہے

غزوۂ بدر اسلام کی پہلی فتح ہے، اس غزوہ میں رسول اقدسؐ کیلئے عریش یعنی چادریں تان کر سائبان سا بنا دیا گیا تھا۔ حضرت صدیق اکبرؓ اسی عریش میں آپؐ کے ساتھ رہے اور آپؐ کی حفاظت کا حق خوب ادا کیا۔ رات بھر تلوار ہاتھ میں لے کر عریش کے چاروں طرف نگہبانی کرتے رہے۔ جس صبح کو لڑائی شروع ہونے والی تھی، اس کی اخیر شب میں رسول اقدسؐ نے نہایت بے قراری کے ساتھ یوں دعا مانگنا شروع کی:
’’خداوندا! اپنا وعدہ پورا فرما۔ اگر یہ تیرے فرمانبردار بندے اس جگہ شکست پا جائیں گے تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کبھی نہ ہوگی۔‘‘
حضرت صدیق اکبرؓ سے اپنے حبیبؐ کی یہ بے قراری نہ دیکھی گئی اور بالآخر عریش کے اندر آکر آپؐ کی ردائے مبارک کا گوشہ ہاتھ میں لے کر کہنے لگے:
’’یا رسول اللہ! بس اتنی دعا کافی ہے‘‘۔
ان کے یہ کہنے پر آپؐ نے سر اٹھایا تو جبرائیل امین وحی الٰہی لئے ہوئے کھڑے تھے اور سورۃ القمر کی آیت نمبر 45 نازل ہوئی۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کافروں کو عنقریب ہزیمت دی جائے گی اور یہ پیٹ پھیر کر بھاگیں گے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبرؓ کی فراست ایمانی تو دیکھو، جبرئیلؑ وحی لے کر چلے اور ان کے قلب مبارک پر انعکاس ہو گیا اور وہ کہہ اٹھے بس اتنی دعا کافی ہے اور ان کا کہنا ٹھیک ثابت ہوا۔ (سیرت خلفائے راشدینؓ، مولانا عبد الشکور لکھنویؒ، ص 36، کتب خانہ مجیدیہ ملتان)
سیرت ابن ہشام میں ہے: نبی اکرمؐ اس موقع پر دعا کرتے ہوئے ان الفاظ میں دعا فرما رہے تھے: ’’خدایا! اگر یہ میری چھوٹی سی جماعت آج مٹ گئی تو روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا‘‘۔
جب آپ کی دعا بہت لمبی ہوگئی تب سیدنا ابو بکرؓ نے عرض کی: ’’بس کیجیے حضور! آپ کی دعا کافی ہوگئی، اللہ ضرور اپنا وعدہ پورا کرے گا۔‘‘ تب آپؐ نے دعا ختم فرمائی اور فرمایا ’’ابوبکر! تمہیں بشارت ہو، اللہ کی مدد آگئی۔ وہ دیکھو جبرئیل اپنے گھوڑے کی باگ ہاتھ میں تھامے آرہے ہیں، ان کے سامنے کے دانتوں پر غبار بھی نظر آرہا ہے۔‘‘ (سیرت النبیؐ لابن ہشام، عبد الملک بن ہشام، ص 627، شرکۃ و مکتبہ حلبہ بمصر)
عدا س کی خوش نصیبی چمک اٹھی
حضور اکرمؐ طائف کے تکلیف دہ سفر سے واپسی میں انگوروں کی بیل کی ایک چھتری کے سائے میں بیٹھ گئے۔ اس وقت ربیعہ کے دو بیٹے حضور اقدسؐ کی طرف دیکھ رہے تھے اور یہ بھی دیکھ رہے تھے جو کچھ طائف کے آوارہ لڑکوں نے آپؐ کے ساتھ سلوک کیا تھا۔ حضورؐ کی جب سانس بحالی ہوگئی تو آپؐ نے بڑی رقت آمیز دعا مانگی اور تھوڑی سانس لینے کے لیے وہاں بیٹھ گئے۔
جب ربیعہ کے دو بیٹوں اور شیبہ نے یہ تکلیف دیکھی، جو حضورؐ کو پہنچی تھی تو انہیں بھی آپؐ پر ترس آیا، حالانکہ وہ آپؐ کے کٹر مخالفین میں سے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک عیسائی غلام کو بلایا، جس کا نام عداس تھا۔ اس سے کہا تم انگور کا ایک خوشہ اس تھالی میں رکھ کر ان کے پاس لے جاؤ۔ اس نے انگور کا ایک خوشہ لا کر رسول اقدسؐ کے آگے رکھ دیا۔ حضورؐ نے جب اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو ’’بسم اللہ‘‘ پڑھ کر آپؐ نے کھایا۔ عداس غلام آپؐ کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر کہنے لگا کہ خدا کی قسم یہ کلام اس شہر والے نہیں پڑھتے۔
رسول اقدسؐ نے اس سے پوچھا کہ تم کس شہر کے رہنے والے ہو؟ اور تمارا دین کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ میں نصرانی ہوں اور نینویٰ کا رہنے والا ہوں۔ رسول اقدسؐ نے فرمایا کہ اچھا ایک نیک شخص حضرت یونسؑ بن متی کی سبتی کے ہو؟ وہ تو میرے بھائی تھے۔ وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔ اس کے بعد عداس تو گویا حضور اقدسؐ کے اوپر گر پڑا اور آپؐ کے سر مبارک، ہاتھوں اور پیروں کو بوسے دینے لگا اور اس نے اسلام قبول کرلیا۔
ربیعہ کے بیٹے ایک دوسرے سے کہنے لگے ’’لو محمدؐ نے تیرے غلام کو بھی خراب کر دیا ہے۔‘‘ عداس جب اپنے ان مالکوں کے پاس واپس آیا تو انہون نے اس سے پوچھا اے عداس تجھے کیا ہوگیا کہ تو ان کے ہاتھ پاؤں چومنے لگا۔ اس غلام نے جواب دیا: اے میرے سردار! روئے زمین پر ان سے بہتر کوئی شخص نہیں ہے۔ انہوں نے مجھے ایک ایسے معاملے کی خبر دی ہے، جسے سوائے نبی کے کوئی نہیں جانتا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment