اندھیری راہوں کے خوش قسمت مسافر

عبدالمالک مجاہد
جہاز جدہ ایئر پورٹ پر اترا تو آواز آئی: سیدہ سلویٰ سے گزارش ہے کہ وہ آگے آ جائیں۔ اس کے ساتھ وی آئی پی سلوک ہوا۔ ہوائی جہاز سے سب سے پہلے اترنے والی سلویٰ ہی تھی۔ نیچے اتری، امیگریشن اور کسٹم سے فارغ ہوئی تو خوبصورت قیمتی گاڑی اس کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ گاڑی میں بیٹھی تو گاڑی کا رخ ہوٹل کی طرف تھا۔ اس کا کمرہ پہلے سے بک تھا۔ کمرے میں گئی تو وہ بیڈ پر لیٹ گئی۔ لمبے سفر کی وجہ سے اسے آرام کی ضرورت تھی۔ وہ فوراً ہی سو گئی۔
اس نے ایک خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنے دائیں ہاتھ میں فانوس لیے کھڑا ہے ۔ فانوس سے نور بکھر رہا ہے۔ نور سے دور دور تک روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ اس شخص کے بائیں ہاتھ میں آگ کا شعلہ ہے، جس سے اس کے جسم کے ایک ایک حصے کو جلایا جا رہا ہے۔
سلویٰ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اسے بڑا ڈر لگ رہا تھا۔ خواب بڑا واضح تھا۔ اس کے سامنے دونوں راستے تھے۔ خیر اور شر کا راستہ۔ ایک ہدایت کا اور دوسرا ظلمت کا راستہ ہے۔ اس نے آنکھیں بند کر کے اپنی سابقہ زندگی پر غور کیا۔ اسے اپنے آپ سے گھن آئی۔ اس نے سوچا غور کیا اور ایک عجیب فیصلہ کیا۔ اس نے اپنا مختصر ترین سامان اپنے ہمراہ لیا۔ کمرے سے نیچے اتری۔ ہوٹل سے باہر آئی تو اسے ایک ٹیکسی نظر آئی۔ اس نے ڈرائیور سے کہا: مجھے مکہ مکرمہ جانا ہے، مگر اس سے پہلے میقات چلو۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب حج کے ایام میں مکہ مکرمہ جانے والوں پر زیادہ پابندیاں نہ تھیں۔ ٹیکسی ڈرائیور اسے میقات پر لے گیا۔ میقات پر پہنچ کر اس نے غسل کیا، وضو کر کے احرام باندھا۔ حج کی نیت کی اور تلبیہ بلند کیا۔ وہ لَبَّیْکَ اللَّھُمَّ لَبَّیْکَ کہتی ہوئی ٹیکسی پر سوار ہوئی۔ اب وہ سوئے حرم رواں تھی۔ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئی تو اس کی زبان پر لَبَّیْکَ اللَّھُمَّ لَبَّیْک کی صدائیں جاری تھیں۔ کعبہ شریف میں داخل ہوئی، طواف کیا۔ سات چکر لگائے، سچے دل سے توبہ کی، مقام ابراہیم پر آئی، دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد زمزم پیا۔ ایسا لگا کہ اس کی تمام روحانی و جسمانی بیماریاں زائل ہو گئی ہیں۔
اب اس کا رخ صفا کی طرف تھا۔ اس نے صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگانے شروع کیے ۔ جب چھٹے چکر میں تھی تو اسے اپنی بصارت پر اعتبار نہ آیا۔ اچانک اسے بریگیڈیئر عبد العزیز سعی کرتا نظر آیا۔ ہاں وہی بریگیڈیئر عبد العزیز جس کا نام اس نے ’’عمید المصیبہ‘‘ رکھا ہوا تھا۔ جسے اس نے مراکش سے دوسرے شہر ٹرانسفر کروا دیا تھا۔ سلویٰ اپنے آپ کو روک نہ سکی۔ اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ کہنے لگی: عبد العزیز! تم یہاں پر بھی آ گئے ہو؟ عبد العزیز نے نگاہیں اٹھائیں، اس کے سامنے سلویٰ کھڑی تھی۔ کہنے لگا: ارے تم یہاں کہاں آ گئیں!!
سلویٰ کہنے لگی: میں بھی تمہاری طرح رحمان کی ضیافت میں ہوں۔ تمہیں کیا معلوم کہ میرے رب نے میری توبہ قبول کر لی ہے، اس نے مجھے ہدایت عطا کر دی ہے۔ وہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے۔ عبد العزیز نے کہا: میں بھی رحمان کی ضیافت میں ہوں۔ دونوں نے سعی مکمل کی۔ سلویٰ نے کہا: اگر تمہارے لیے ممکن ہو تو مناسک حج میں مجھے اپنے ساتھ رکھ لو۔ میں اکیلی ہوں، حج کیسے کر سکوں گی۔
عبد العزیز نے قافلے کے ذمہ داران سے درخواست اور سفارش کی جسے قبول کر لیا گیا۔ یوں سلویٰ نے حج کے باقی ارکان اپنی قوم کے افراد کے ساتھ ادا کیے۔ سلویٰ نے حج کے ارکان پورے کیے۔ اب قافلہ کا رخ مدینۃ منورہ کی طرف تھا۔ سلویٰ بھی مدینہ پہنچ گئی۔ عبدالعزیز سلویٰ کو دیکھتا رہا، اس کا انداز بالکل بدل گیا تھا۔ حج نے اس پر بہت گہرا اثر ڈالا تھا۔ وہ اب رحمان کی بندی بن گئی تھی۔ عبد العزیز کی سلویٰ کے بارے میں رائے تبدیل ہو چکی تھی، وہ اس کی توبہ سے بڑا خوش تھا۔ سلویٰ نے اسے جدہ ایئر پورٹ سے اترنے کے بعد کے سارے واقعات سنائے۔
سلویٰ نے عبد العزیز سے کہا: میرے پاس مراکش میں خاصی دولت ہے جو میں نے غلط کاموں سے کمائی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اسے اچھے کاموں میں لگا دوں ۔ کیا تم میری مدد کرو گے؟ عبد العزیز نے کہا: ہاں ایک شرط پر! وہ کیا؟ سلویٰ بولی۔ عبد العزیز نے کہا: یہ کہ تم ہمیشہ کے لیے میرے دامن سے وابستہ ہو جاؤ۔ سلویٰ نے لمحہ بھر سوچا، سر تسلیم خم کر دیا اور کہا: ہاں! میں آپ کو اپنے خاوند کے طور پر قبول کرتی ہوں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment