میں دو دن بعد جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے گیا۔ ابوحسین صاحب نے مجھے یہ رائے دی کہ یہاں سب نمازیوں کے سامنے دوبارہ کلمہ پڑھوں۔ میں نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ ابوحسین صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون سا مسلم نام پسند کرتے ہو تاکہ امام صاحب اس مسلم نام سے تمہارا تعارف کروا سکیں۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ فی الحال مجھے کوئی نام یاد نہیں آیا۔ امام صاحب میرے امریکی نام سے ہی تعارف کروا دیں تو بہتر ہے۔ اس کے بعد ابوحسین صاحب میرے قریب بیٹھے قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہو گئے۔ اچانک انہوں نے اپنی کہنی سے میرے جسم کو چھوا اور کہنے لگے کیا تجھے یحییٰ نام پسند ہے؟ میں نے پوچھا: یحییٰ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا: John the Baptist یعنی یحییٰ علیہ السلام۔
میں نے کہا کہ John the Baptist کو اپنے پرانے مذہب سے بھی پہچانتا ہوں۔ ابوحسین صاحب نے کہا کہ اس کے دوسرے معنی نئی زندگی کے بھی ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ میری ایک نئی زندگی ہے، اس لحاظ سے بھی یہ نام مناسب ہے۔ اس طرح میں نے تعارف سے پہلے ہی یحییٰ نام پسند کر لیا اور امام صاحب نے جمعہ کی نماز کے بعد میرا اسی نام سے تعارف کروایا۔
تقریباً چار سو لوگوں کے سامنے کلمہ پڑھنے کے بعد سب افراد بے حد خوشی اور پیار سے مجھ سے بغل گیر ہوئے۔ بعض لوگ باری باری گلے ملتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ تم نے اپنی زندگی میں یہ سب سے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ ہر شخص انفرادی طور پر گلے ملے بغیر مسجد سے نہیں جانا چاہتا تھا، اس محبت اور اخلاص سے میرا اسلامی جذبہ اور حوصلہ بہت بلند ہو گیا۔
یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں ایک اسلامی ملک میں مقیم تھا، اس لیے اسلامی تعلیم و تربیت حاصل کرنا بہت آسان تھا۔ میں نے چند اجنبی ممالک کے مسلمانوں کے ہمراہ ہفتہ میں کم از کم ایک دن تعلیم کے لیے مقرر کیا، یہ سلسلہ چار سال تک جاری رہا۔ میں نے عربی، حفظ قرآن اور فقہ وغیرہ سیکھ لیے۔ یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ میں نے سعودی سفر سے پہلے ہی ایک کتاب سے خود بخود عربی حروف پڑھنا اور لکھنا سیکھ لیا تھا۔ اسی وجہ سے میں نے قران پاک کی تلاوت کرنا بہت جلد سیکھ لی، قرآن پاک کی زبان عربی ہے۔ میرے خیال میں ہر مسلمان کے لیے عربی سیکھنا اور سمجھنا نہایت اہم ہے۔ چند سال کے بعد جب میں مدینہ منورہ منتقل ہوا تو یہاں کے روحانی ماحول نے میرے دل کو اور بھی پاک کر دیا۔
اسلام کی تعلیمات کے مطابق شادی کرنا ضروری ہے، میں نے سوچا کہ میں اپنے بچوں کو سب سے قیمتی تحفہ یہ دوں گا کہ عربی زبان ان کی مادری زبان ہو، اس لیے بہتر یہ ہو گا کہ میں کسی عربی نسل کی لڑکی سے شادی کروں۔ اس سوچ کے تحت میں نے ایک شامی لڑکی سے شادی کی اور خدا کے فضل سے ہمارے بچوں کو عربی زبان پر خوب عبور ہے۔
چھٹیوں کے دوران میں امریکہ گیا، میرے دوست میرا مذاق اڑانے لگے اور بار بار کہتے کہ تم اس عورت سے کیسے شادی کرسکتے ہو، جسے تم ذاتی طور پر پوری طرح سے نہیں جانتے ہو؟ میں نے انہیں وضاحت کے طور پر جواب دیا کہ خدا تعالیٰ نے اسلام میں میاں بیوی کے حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین کر دیا ہے اور دونوں کا کردار بھی مخصوص ہے۔ یہ سب خالق مطلق کے قوانین ہیں جو کہ انسان کے بنائے ہوئے تمام قوانین سے بدرجہا بہتر و افضل ہیں۔ اگر ہم ان قوانین کی خلوصِ نیت سے پیروی کریں تو میاں بیوی کے تعلقات میں ذرا بھی آنچ نہیں آتی، بلکہ ایک مثالی اور پْرسکون زندگی نصیب ہوتی ہے۔ انہوں نے میری بات سن کر قہقہہ لگایا۔ میں نے امریکی دوستوں پر ان سے بھی بڑھ کر قہقہہ لگایا اور یہ کہا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ تم شادی سے پہلے کئی لڑکیوں سے دوستی لگاتے ہو، تمہارا یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے تم کار خریدنے سے پہلے اسے ٹیسٹ ڈرائیو (Test Drive) کرتے ہو، یہ سن کر وہ لاجواب ہو گئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭