سرفروش

عباس ثاقب
کچھ ہی دیر میں میرا آٹو رکشا کولابا کی ویران سڑکوں پر رواں دواں تھا۔ میں حقیقی معنوں میں خوشی سے جھوم رہا تھا۔ اتنے جتن کرکے سچن کے گھر میں میرا گھسنا درحقیقت کسی واضح لائحہ عمل کا حصہ نہیں تھا، بلکہ ایک طرح سے ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف تھا۔ لیکن اب تک کی حوصلہ افزا پیش رفت سے مجھے امید بندھ چلی تھی کہ اندھیرے میں پھینکا گیا میرا تیر بے کار نہیں گیا اور محض خوش نصیبی کے بل بوتے پر شاید میں اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔
میں اپنے بستر پر لیٹا تو رات کا آخری پہر چل رہا تھا۔ لیکن تمام دن کی تگ و دو کے باوجود نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میں اپنی اب تک کی پیش رفت کی روشنی میں آئندہ کے حکمتِ عملی پر غور کرتا رہا اور پھر خاصا دماغ لڑانے کے بعد میں نے اپنے لیے ایک ڈھیلا ڈھالا سا لائحہ عمل طے کرلیا اور صبح ہوتے ہی اس پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
دیرینہ عادت کے مطابق بہت دیر سے سونے کے باوجود سورج چڑھتے ہی میری آنکھ کھل گئی۔ میں تیار ہوکر گھر سے نکلا اور ایک جگہ ناشتا کرنے کے بعد اس شخص کے اڈے پر پہنچ گیا، جس نے اسلم کی ضمانت پر مجھے آٹو رکشا بھاڑے پر دیا تھا۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ آٹو رکشے کی جگہ مجھے ٹیکسی بھاڑے پر دے دے یا کسی سے دلوادے۔ قدرے ہچکچاہٹ کے بعد، غالباً میری طرف سے آٹو رکشے کی طرح ٹیکسی کا بھی دس دن کا بھاڑا ایڈوانس دینے کی پیشکش پر اس نے اپنی ملکیتی ایک فئیٹ ٹیکسی مجھے فراہم کرنے کی ہامی بھرلی اور دوپہر دو بجے تک دوبارہ آنے کو کہا۔
وہ چھٹی کا دن تھا اور سڑکوں پر کچھ زیادہ چہل پہل نہیں تھی۔ میں نے آٹو رکشے میں لگ بھگ بارہ بجے سچن کے گھر کا رخ کیا۔ وہاں ابھی تک سناٹا طاری تھا۔ میں نے آٹو رکشا گیٹ کے سامنے روکا اور ہارن بجایا۔ پہلے ہارن پر کوئی ردِ عمل سامنے نہ آنے پر میں نے دوسری اور پھر تیسری بار ہارن بجایا۔ بالآخر اوپری منزل کی چھوٹی سی گیلری میں آرتی دیوی نمودار ہوئی۔ اس کے چہرے پر خفگی کے آثار نمایاں تھے۔ اس نے مجھے گھورتے ہوئے گجراتی لہجے میں پوچھا کہ مجھے کیا تکلیف ہے۔
اسے دیکھ کر میں آٹو رکشے کا انجن بندکرکے گیٹ کے قریب جا کھڑا ہوا۔ میں نے بلند لیکن احترام آمیز لہجے میں کہا ’’میم صاحب، پلیز ذرا بابو کو بھیجنا، ایک ارجنٹ کام سے ملنا ہے‘‘۔
اس نے پوچھا کہ کیا کام ہے۔ لیکن میں نے اصرار کیا کہ میں بابو ہی کو بتاؤں گا۔ وہ پیر پٹخنے کے انداز میں اندر گئی اور چند ہی لمحوں بعد اپنے شوہر کو ساتھ لیے گیلری میں واپس آئی۔ شب خوابی کے لبادے میں ابھی تک ملبوس سچن چندھیائی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کے انداز سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ مجھے پہچان نہیں پایا ہے۔ میں نے پیشانی پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا اور کہا ’’بابو پلیز ذرا نیچے آؤ، ہم کو تم سے ایک کام ہے‘‘۔
اس نے چونک کر کہا ’’کیساکام؟‘‘۔
میں نے خوش دلی سے ہنستے ہوئے کہا ’’تم ہم کو بھول گیا کیا؟ رات ہم نے ہی تو تم کو بنگلے پر پہنچایا تھا۔ تم کو یاد نہیں تم…‘‘۔
میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی اسے جیسے بجلی کا جھٹکا لگا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکتے ہوئے کہا ’’اوکے، اوکے… تم رکو، میں آرہا ہوں‘‘۔ اس دوران میں آرتی بغور میری اور اس کی باتیں سن رہی تھی۔ سچن نے بروقت خطرے کا ادراک کرلیا تھا۔ اس نے جانے اپنی بیوی کو کیا بتایا ہوگا، بہر حال چند ہی لمحوں بعد وہ میرے پاس موجود تھا۔ اس نے مضطرب لہجے میں پوچھا ’’کیا مسئلہ ہے؟ تم کیا لینے یہاں آئے ہو؟‘‘۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’صاحب، کچھ لینے نہیں، تمہارا امانت تمہیں واپس دینے آیا ہے۔ یہ لو!‘‘۔
اس نے چونک کر میرے ہاتھ کی طرف دیکھا۔ میں نے چابیوں کا گچھا اس کے چہرے تک اٹھایا اور پھر آرتی کی نظروں کے سامنے اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’نائٹ کو تمہارا جیب سے نکل کر میرے آٹو میں گر گیا تھا۔ مارننگ کو صفائی کرتے ہوئے ملا تو سوچا تم کو پہنچا دے۔ رات کو تم بہت زیادہ ڈرنک…‘‘۔
اس نے گھبرا کر میری بات کاٹ دی ’’اچھا، اچھا… ٹھیک ہے۔ تھینک یو!‘‘۔ وہ مڑ کے جانے ہی والا تھا کہ میں نے کہا ’’صاحب اونلی تھینک یو؟ فیول جلاکر یہاں تک آیا ہے‘‘۔
اس نے میرا مفہوم سمجھ کر اپنے لبادے کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، لیکن وہاں کوئی رقم کیسے ہو سکتی تھی۔ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا ’’اچھا رہنے دو صاحب، ہم چلتا ہے‘‘۔
سچن نے ایک نظر اپنی بیوی پر ڈالی اور پھر مجھ سے مخاطب ہوا ’’اچھا تم رکو، میں ڈریس چینج کرکے آتا ہوں۔ تم مجھے گاڑی تک چھوڑ آؤ۔ تمہارا بھاڑا بھی بن جائے گا‘‘۔
میں نے ہاں میں گردن ہلاتے ہوئے کہا ’’جو حکم بابو، لیکن اب ٹریفک بہت ہوگا۔ سکس روپیز بھاڑا ہوگا‘‘۔ میں نے جان بوجھ کر اپنی آواز اتنی بلند رکھی کہ آرتی تک پہنچ جائے۔ میری توقع کے عین مطابق سچن نے گھبراکر مجھے خاموش ہونے کا اشارہ کیا اور گھر میں واپس چلا گیا۔ اسے اندر آتے دیکھ کر آرتی بھی گیلری سے ہٹ گئی۔ میں دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔ اپنا راز کھلنے کے ڈر سے سچن کی روح خشک ہوئی جارہی تھی۔ اس کی یہ کیفیت مجھے اپنے آئندہ مقاصد کے حصول میں بہت موافق لگ رہی تھی۔
سچن کپڑے بدل کر کچھ ہی دیر میں لوٹ آیا اور پچھلی سیٹ پر براجمان ہوگیا۔ میں نے جیسے ہی آٹو رکشا آگے بڑھایا، وہ غصے سے پھٹ پڑا ’’یار عجیب آدمی ہو، فالتو بات کرنے کا اتنا شوق کیوں ہے تم کو؟‘‘۔
میں نے قدرے سخت لہجے میں کہا ’’بابو ہم کون سا فالتو بات بولا؟ اسٹرینج فیلو تو تم ہے، تمہارے پرابلم کا سوچ کر میں اتنا دور آیا اور تم میرے پر ہی اینگری ہوتا ہے؟‘‘۔
میرے لہجے کی سختی محسوس کر کے وہ خود نرم پڑگیا ’’او کے، ختم کرو… تھینک یو اینڈ آئی ایم سوری… اب ذرا دھیان سے مجھے میری گاڑی تک پہنچا دو‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment