تحریک لبیک نے ناموس رسالت قانون مؤثر بنانے کی تیاری کرلی

تحریک لبیک یا رسول اللہ نے ناموس رسالت قانون کو مؤثر بنانے کے لئے تحریک چلانے کی تیاری کر لی ہے۔ اس سلسلے میں جلد کارکنوں کو لائحہ عمل دیا جائے گا۔ تنظیم کے اندرونی ذرائع کے مطابق ملعون ڈچ رکن پارلیمنٹ کو گستاخانہ مقابلے سے دستبردار کرانے کے بعد تحریک لبیک کا اگلا ہدف ناموس رسالت قانون کو مؤثر بنانا ہے۔ اس سلسلے میں تحریک کے اہم قائدین کے درمیان ابتدائی مشاورت ہو چکی ہے تاہم متفقہ اور حتمی لائحہ عمل جلد ہی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں طے کیا جائے گا۔ اس کے لئے غلامان رسول کو تیار رہنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک لبیک کی مرکزی قیادت سمجھتی ہے کہ گستاخ کی سزائے موت سے متعلق شق 295-C اس وقت معطل ہے۔ کیونکہ اس قانون کے تحت سینکڑوں مقدمات درج ہوچکے ہیں تاہم کسی ایک مقدمہ میں بھی اب تک کسی کو سزائے موت نہیں دی گئی۔ یا تو سزائیں معطل ہیں یا مجرمان اپیل میں گئے ہوئے ہیں یا بیشتر بری ہو چکے ہیں۔ حتیٰ کہ اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے آسیہ ملعونہ کی سزائے موت کی اپیلیں مسترد ہو جانے کے باوجود بھی اس کی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔ لہٰذا تحریک لبیک کے قائدین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ان گستاخان کی سزائوں پر عمل درآمد کرانے کے لئے دفعہ 295-C کا احیاء ضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر چہ ابھی یہ طے نہیں کیا گیا کہ تحفظ ناموس رسالت قانون کو فعال بنانے کیلئے حکومت پر کس طریقے سے دبائو بڑھایا جائے گا اور یہ کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ مجلس شوریٰ کی میٹنگ میں کیا جانا ہے تاہم اس کے لئے جلسے، جلوس، مارچ اور دھرنے سمیت تمام آپشن استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ ذرائع کے بقول تحریک میں آسیہ ملعونہ کی سزا پر عمل درآمد کرنے پر بھی خصوصی زور دیا جائے گا۔ آسیہ ملعونہ پر 2009ء میں گستاخی کا کیس بنا تھا اور 2010ء میں شیخوپورہ کی ایک عدالت نے آسیہ ملعونہ کو سزائے موت سنائی۔ جس پر آسیہ نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ تاہم لاہور ہائی کورٹ نے بھی اس کی سزائے موت کو برقرار رکھا۔ جس کے بعد وہ سپریم کورٹ پہنچ گئی۔ اٹھارہ برس گزرنے کے باوجود آسیہ ملعونہ کی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔ جبکہ اس کی سزا پر عمل درآمد رکوانے کے لئے امریکہ سمیت مغرب کے بیشتر ممالک کا پاکستان پر شدید دبائو ہے۔ نواز شریف دور میں سرکاری ملازمت کرنے والے ایک افسر کے مطابق نہ صرف آسیہ ملعونہ کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کے لئے امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے پاکستان پر دبائو آیا بلکہ تحفظ ناموس رسالت قانون کی شق 295-C میں ترمیم یا اسے ختم کرنے کے لئے بھی مشرف دور سے لے کر زرداری اور پھر نواز دور میں امریکہ کی طرف سے مسلسل دبائو ڈالا جاتا رہا۔ اور یہ دبائو بعض اوقات براہ راست امریکی صدور کی جانب سے آیا۔ 295-C ناموس رسالت قانون کی سب سے اہم شق ہے۔ اگر اس میں ترمیم کر دی جائے یا اسے ختم کر دیا جائے تو یہ قانون عملاً غیر مؤثر ہو جائے گا۔ شق 295-C کا متن ہے ’’ جو کوئی شخص بذریعہ الفاظ خواہ تحریری ہوں یا زبانی یا دِکھنے والے نمونوں کے ذریعے سے، موہوم انداز میں یا عیارانہ انداز میں یا اشارہ و کنایہ سے بلاواسطہ یا بالواسطہ پیغمبر پاک محمد ﷺ کے مبارک نام کی توہین کرے تو اس کو موت کی سزا دی جائے گی۔ نیز، مجرم جرمانہ کا مستوجب ہو گا‘‘۔
ناموس رسالت کے حوالے سے فیض آباد دھرنے اور پھر داتا دربار دھرنے کے بعد گستاخانہ مقابلے کے خلاف مارچ میں جس طرح تحریک لبیک سرخرو ہوئی ہے اس سے تحریک کے قائدین اور بالخصوص کارکنان کا حوصلہ اور عزم مزید بلند ہو گیا ہے۔ ان کامیابیوںکو تحریک کے قائدین اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد قرار دیتے ہیں۔ اور ان کا کہنا ہے کہ ملک میں نظام مصطفیٰ اور ناموس رسالت کے قانون کو عملی طور پر مؤثر بنانے کے لئے ابھی بہت سا کام کیا جانا باقی ہے۔ لہٰذا یہ خارج از امکان ہے کہ تحریک، ملک میں دین کے غلبے سے متعلق اپنے اہم مقاصد کے کسی ایک ہدف کو حاصل کرنے کے بعد تھک کر بیٹھ جائے گی۔ گستاخانہ خاکوں کے خلاف لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے والے ایک کارکن نے بتایا کہ شرکا کی بڑی تعداد نے بیشتر سفر پیدل طے کیا۔جبکہ تحریک لبیک کے امیر شیخ الحدیث علامہ خادم حسین رضوی جو اس مارچ کو لیڈ کر رہے تھے ان کا جذبہ بھی قابل دید تھا۔ وہ مسلسل 33 گھنٹے وہیل چیئر پر بیٹھے رہے۔ اس دوران ان کا زیادہ وقت تسبیح اور وظائف پڑھنے میں گزرا۔ احتجاج کے حوالے سے جب حکومتی وزراء کے ساتھ اہم میٹنگ ہو رہی تھی تو اس دوران اچانک معلوم ہوا کہ ملعون ڈچ رکن پارلیمنٹ نے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کر دیا ہے۔
تحریک لبیک یارسول اللہ کے مرکزی ناظم نشر و اشاعت پیر اعجاز اشرفی کا کہنا ہے کہ ہالینڈ کی حکومت کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کرنا تحریک لبیک کی فتح مبین ہے۔ پوری دنیا کے میڈیا اور صحافتی حلقوں نے اس کا کریڈٹ تحریک لبیک کو دیا ہے۔ ’’امت‘‘ کے اس سوال پر کہ اس کا کریڈٹ تو حکومت لے رہی ہے؟ پیر اعجاز اشرفی کا کہنا تھا ’’ حکومت تو آخری وقت تک ڈچ حکومت کی ترجمان بنی ہوئی تھی۔ اور ان کی زبان بول رہی تھی۔ حتیٰ کہ جہلم میں حکومت نے ہمارے کاررواں کو روکنے کی کوشش بھی کی۔ پھر اسی طرح 6 اگست کو لاہور میں جب امیر تحریک لبیک نے اعلان کیا تھا کہ ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے والی حکومت ناموس رسالت قانون کو مؤثر بنانے کے لئے اقدامات کرے تو کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ایسے میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کرانے کا کریڈٹ حکومت کیسے لے سکتی ہے‘‘۔ پیر اعجاز اشرفی نے تصدیق کی کہ ملک میں ناموس رسالت قانون 295-C کا قانون موثر بنانے کے لئے تحریک لبیک بھرپور تیاری کر رہی ہے۔ پیر اعجاز اشرفی کے بقول اس وقت اس قانون کو فعال کرنا اشد ضروری ہے ورنہ ملعونہ آسیہ جیسے کیس سامنے آتے رہیں گے۔ جس کی اپیلیں اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے مسترد ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود اسے تختہ دار پر لٹکانے کے بجائے مہمان بنا کر رکھا گیا ہے۔ لہٰذا ناموس رسالت قانون کے احیاء کے لئے تحریک لبیک جلد راست اقدام کرے گی۔ پیر اعجاز اشرفی نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ راست اقدام کیا ہو گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ راست اقدام میں احتجاج کے تمام مطالب موجود ہیں۔ کارکنوں کا مورال بہت بلند ہے۔ تحریک کے تمام ذمہ داران اور علماء مشائخ اس پر متفق ہیں کہ اب تک جتنا ہوا وہ ناکافی ہے اور ناموس رسالت کے حوالے سے ابھی بہت زیادہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کے اجلاس میں خطاب کرنے جا رہے ہیں۔ تحریک لبیک کا انہیں یہ واضح پیغام ہے کہ وہ اس عالمی فورم پر گستاخان رسول کے خلاف بھی بھرپور طریقے سے آواز بلند کریں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment