خلاصہ تفسیر
(آپ نے نیکوں کی صفات تو سن لیں) تو بھلا آپ نے ایسے شخص کو بھی دیکھا جس نے (دین حق سے) روگردانی کی (یعنی اسلام سے ہٹ گیا) اور تھوڑا مال دیا اور (پھر) بند کردیا (یعنی جس شخص سے مال دینے کا وعدہ اپنے مطلب کے واسطے کیا تھا، وہ بھی پورا نہ دیا اور اسی سے مفہوم ہوا کہ ایسا شخص دوسروں کی نفع رسانی کے لئے کیا خرچ کرے گا، جب اپنے ہی مطلب کے لئے پورا خرچ نہ کرسکا، جس کا حاصل اس کا بخیل ہونا ہے) کیا اس شخص کے پاس (کسی صحیح ذریعے سے) علم غیب ہے کہ اس کو دیکھ رہا ہے (جس کے ذریعے سے معلوم ہوگیا کہ فلاں شخص میری طرف سے میرے گناہوں کا عذاب اپنے سر لے کر مجھے عذاب سے بچا دے گا) کیا اس کو اس مضمون کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں ہے (اور حسب روایت در منثور در تفسیر سورئہ اعلیٰ موسیٰ (علیہ السلام) کے یہ دس صحیفے علاوہ توریت کے ہیں) اور نیز ابراہیم (علیہ السلام) کے (صحیفوں میں ہے وسیاتی فی سورۃ الاعلیٰ) جنہوں نے احکام کی پوری بجا آوری کی (اور وہ مضمون) یہ (ہے) کہ کوئی شخص کسی کا گناہ اپنے اوپر (ایسے طور سے) نہیں لے سکتا (کہ گناہ کرنے والا بری ہو جائے، پھر یہ شخص کیسے سمجھ گیا کہ میرا سارا گناہ یہ شخص اپنے سر رکھ لے گا) اور یہ (مضمون ہے) کہ انسان کو (ایمان کے بارے میں) صرف اپنی ہی کمائی ملے گی (یعنی کسی دوسرے کا ایمان اس کے کام نہ آوے گا، پس اگر اس ملامت کرنے والے شخص کے پاس ایمان ہوتا تب بھی اس شخص کے کام نہ آتا، چہ جائیکہ وہاں بھی ایمان ندارد ہے) اور یہ (مضمون ہے) کہ انسان کی سعی بہت جلد دیکھی جائے گی، پھر اس کو پورا بدلہ دیا جاوے گا (باوجود اس کے یہ شخص اپنی فلاح کی سعی سے کیسے غافل ہوگیا) اور یہ (مضمون ہے) کہ (سب کو) آپ کے پروردگار ہی کے پاس پہنچنا ہے (پھر وہ شخص کیسے نڈر ہوگیا) اور یہ (مضمون ہے) کہ وہی ہنساتا اور رلاتا ہے اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور جلاتا ہے اور یہ کہ وہی دونوں قسم یعنی نر اور مادہ کو نطفہ سے بناتا ہے، جب (وہ رحم میں) ڈالا جاتا ہے (یعنی مالک تمام تصرفات کا خدا ہی ہے، دوسرا نہیں، پھر وہ شخص کیسے سمجھ گیا کہ قیامت کے روز یہ تصرف کہ مجھ کو عذاب سے بچا لے، کسی دوسرے کے قبضے میں ہو جاوے گا) اور یہ (مضمون ہے) کہ دوبارہ پیدا کرنا (حسب وعدہ) اس کے ذمہ ہے (یعنی ایسا ضروری ہونے والا ہے جیسے کسی کے ذمہ ہو تو اس شخص کے نڈر ہونے کی وجہ یہ بھی نہ ہونا چاہئے کہ قیامت نہ آوے گی) (جاری ہے)