جیولوجیکل سروے آف ایران کے ہیڈکوارٹر جاناخوشگوار تجربہ رہا

قسط نمبر 43
معروف ماہر ارضیات شمس الحسن فاروقی مختلف سرکاری اداروں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (PMDC) میں چیف جیولوجسٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ افغانستان اور ایران کے تفصیلی ارضیاتی دورے کئے۔ اس کے علاوہ خطے کے معدنی دخائر پر متعدد تحقیقی مقالے بھی تحریر کر چکے ہیں۔ شمس الحسن فاروقی کی کتاب ’’رودادِ ایران‘‘ بلاشبہ تحقیق و مشاہدات پر مبنی ایسی تصنیف ہے جو ارضیات کے طلبہ سمیت ذوق مطالعہ رکھنے والے ہر فرد کو پسند آئے گی۔ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کیلئے اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔

مجھ حقیر کو ہمیشہ ارضیات کے طالب علموں اور اساتذہ سے مل کر ان سے ارضیاتی مسائل پر خیالات کا تبادلہ کر کے یا ان کے درمیان اپنے تحقیقی مقالے پیش کر کے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات میں تو 1970ء سے ارضیاتی مسائل پر لیکچر دیتا رہا ہوں۔ وہاں منعقد ہونے والے ارضیاتی سیمیناروں میں تحقیقی مقالے پیش کرتا رہا ہوں۔ اس طرح کا تعلق مگر نسبتاً کم درجے والا پنجاب یونیورسٹی لاہور، انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور، پشاور یونیورسٹی آف انجینئرنگ پشاور سے بھی رہا ہے۔ کم از کم ایک تحقیقی مقالہ ہمدرد کالج ایسٹرن میڈیسنز کراچی شلاجیت کی پیدائش اور اس کی ماہیت پر بھی پیش کرنے کا موقع ملا، جس کو بعد میں مشہور زمانہ حکیم شہید محمد سعید صاحب نے اپنے بین الاقوامی جریدے ’’ہمدرد میڈیکس (Hamdard Medicus) کے اپریل، جون 1997ء کے شمارے میں شائع بھی فرمایا۔ مگر تہران یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات کا تجربہ بڑا تلخ اور تکلیف دہ تھا۔ یہ بات ابھی تک سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ آخر وہ کیا وجہ تھی جس کی بنا پر ان لوگوں نے میرے ساتھ اتنا غیر دوستانہ رویہ روارکھا۔ ایک ممکنہ وجہ میرا خراب حلیہ اور ستا ہوا (dehydeated) چہرہ ہو سکتا ہے۔ گو یہ بھی کسی بھی صورت میں اس بدتمیزی کا جواز نہیں بنتا۔
مجھے اب یاد نہیں کہ تہران یونیورسٹی سے نکل کر کس جگہ میں نے اپنے جسم میں پانی کی شدید کمی کی مداوا کیا اور کس جگہ اپنا بگڑا ہوا حلیہ درست کیا۔ مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ میں وہاں سے سیدھا تہران کے میدان آزادی گیا کہ وہاں کے روح پرور ماحول میں اپنی بگڑی ہوئی دماغی حالت کی بحالی کی امید تھی اور ویسے بھی اس روز کی میری اگلی منزل یعنی جیولوجیکل سروے آف ایران کا صدر دفتر میدان آزادی کے قریب ہی واقع تھا۔
میدان آزادی میں بالخصوص اس کے فواروں کیساتھ کچھ وقت گزار کر اور تازہ دم ہوکر میں نے خیابان معراج کی طرف کوچ کیا جو میدان آزادی سے ملحق ہی ہے۔ تہران کے سیاحتی مقام پر خیابان معراج ایک چھوٹی سے سڑک تھی، جو میدان آزادی کو تہران کے ہوائی اڈے سے ملاتی تھی۔ مگر جب میں اس پر پہنچا تو اس کو ایک بڑی اور کشادہ (چہار رویہ) اور شاندار سڑک پایا، جس پر حکومت ایران کے دو اہم اداروں کے ہیڈکوراٹر واقع تھے۔ ایک سازمان زمین شناسی ایران، اور دوسرا سازمان نقشہ برداری ایران (National Cartographic Centre of Iran)۔ ایران کے یہ دونوں بڑے ادارے قریب قریب ہی واقع ہیں اور خیابان معراج پر دونوں اداروں کا ایک ہی مشترکہ سائن بورڈ ہے۔ میں پہلے اولذ کر ادارے یعنی جیولوجیکل سروے کے ہیڈ کوارٹر میں وارد ہوا اور بغیر کسی دقت و رکاوٹ سیدھا جیولوجیکل سروے آف ایران کے مشہور زمانہ جیولوجسٹ جناب ڈاکٹر آغان آباتی کے پاس جا پہنچا اور ان سے اپنا مختصر تعارف کرایا۔ ڈاکٹر آغان آباتی مجھ حقیر سے نہایت خوش دلی اور خندہ پیشانی سے ملے۔ کیونکہ وہ ایک سے زیادہ مرتبہ پاکستان جا چکے تھے اس لیے پاکستان اور واقف کار پاکستانیوں کا حال دریافت کیا۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں جیولوجیکل سروے آف ایران میں بحیثیت منیجر پلاننگ و پروگرامنگ ڈویژن فرائض ادا کر رہے تھے۔ میں نے ڈاکٹر آغان آباتی کا نام عرصے سے سن رکھا تھا۔ ان کا تیار کردہ ایران کا ارضیاتی نقشہ بھی دیکھ رکھا تھا اور اس سے استفادہ بھی کر چکا تھا۔ البتہ ملاقات یہ پہلی ہی تھی۔ مگر از راہ شرافت و عالی ظرفی وہ مجھ سے اس طرح ملے کہ جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ آغان آباتی صاحب نے مجھ حقیر کو بڑے احترام و عزت سے اپنے دفتر میں بٹھایا۔ اپنی پرسنل سیکریٹری بیگم کیانی سے جو ایک معمر خاتون تھیں، میرا تعارف کرایا اور ساتھ ہی لذیذ چائے اور اعلیٰ قسم کے بسکٹوں سے میری تواضع کی۔ چائے کی نشست کے دوران ڈاکٹر آغان آباتی صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ کوئٹہ جا چکے ہیں اور مسلم باغ کے کرومائٹ کے ذخائر کا بھی معائنہ کر چکے ہیں۔ انہیں کوئٹہ میں جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے ہیڈ کوارٹر میں اس زمانے میں تعینات ایک مشرقی پاکستان جیولوجسٹ بہت اچھی طرح یاد تھے۔ آغان آباتی صاحب نے از راہ عنایت مجھے جیولوجیکل سروے آف ایران کی شاندار لائبریری کا بھی ایک دورہ کرایا، جہاں تین مختلف دیوار سائز کے بڑے نفیس اور تفصیلی جیولوجیکل نقشے دیکھ کر میں بڑا متاثر ہوا۔ یہ نقشے مندرجہ ذیل تھے۔
1۔ ایران کا ارضیاتی نقشہ (Geological map of Iran)
2۔ ایران کا معدنیاتی نقشہ (Mineral map of Iran)
3۔ ایران کا میگمیٹگ نقشہ(Magmatic map of Iran)
جب میں نے انہیں بتایا کہ میں کرمان، طبس، سیرجان اور سیمنان کے علاقوں کے ارضیاتی نقشوں کے حصول میں دلچسپی رکھتا ہوں تو انہوں نے فوراً ان تمام قیمتی نقشوں کا بندوبست کردیا۔ یہ نقشے 1:250,000 کے مقیاس (اسکیل) پر بنے ہوئے تھے اور میرے ایران کے باقی ماندہ دورے میں اور پھر پاکستان میں بہت کام آئے۔ پہلے آغان آباتی صاحب نے فرمایا کہ یہ ہماری قیمتی مطبوعات ہیں۔ آپ کو ان کے لئے ادائیگی کرنا ہوگا۔ میں نے عرض کی کہ میں خود بھی یہی چاہتا تھا۔ مگر یہ بات واضح کردوں کہ ان کی قیمت ادا کردینے کے بعد بھی میں اس عنایت کے لیے آپ کا ازحد ممنون احسان رہوں گا، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ کہیں اور سے قیمت دے کر بھی ان نقشوں کا حصول میرے لیے اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوگا۔ مگر یہ کیا! جب میں نے قیمت کی ادائیگی کے لیے اپنا بٹوا نکالا تو آغان آباتی صاحب نے مجھے یہ کہہ کر ادائیگی سے روک دیا کہ آپ میرے ہم پیشہ ساتھی ہیں اور پھر پاکستان سے تشریف لائے ہیں۔ اس لیے آپ سے ان نقشوں کی قیمت لیتے ہوئی مجھے شرم آتی ہے۔ پس آپ ان نقشوں کومیری طرف سے ایک چھوٹا سا تحفہ سمجھ کر قبول فرمالیجیے۔ اور پھر باوجود میرے اصرار کے نقشوں کی قیمت لینے پر راضی نہ ہوئے اور وہ سرکاری رسید جو ان کی پرسنل سیکریٹری صاحبہ نے تیار کی تھی منسوخ کردی۔
جب میں نے آغان آباتی صاحب سے ایرانی کوئلے اور خام لوہے کے ذخائر پر شائع ارضیاتی رپورٹوں کا تذکرہ کرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ دونوں اقسام کے ذخائر کیوں کہ نسکو کے ادارے کو کانکنی کے پٹوں پر دیئے جاچکے ہیں اور وہی ادارہ ان ذخائر پر معلوماتی کام کرنے کا ذمہ دار ہے، اس لیے ہمارا ادارہ (GSI) ان ذخائر پر کسی قسم کا کوئی کام نہیں کرتا، نہ ہی ہمارے پاس ان ذخائر پر کسی قسم کی معلوماتی رپورٹیں ہیں۔ مگر انہوں نے مجھے نسکو کے ڈاکٹر مہوی صاحب کا پتہ دیا اور فرمایا کہ انہوں نے ایران کے کوئلے کے ذخائر پر بہت تفصیلی کام کیا ہے۔ آپ ان سے ملیے امید ہے کہ آپکو ان سے اپنی مطلوبہ رپورٹیں مل جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی ہماری ملاقات ختم ہوگئی۔ ڈاکٹر آغان آباتی از راہ عنایت مجھے چھوڑنے اداے کی عمارت کے صدر دروازے تک آئے، جہاں میں نے اپنے کیمرے سے ان کی تصویر اتارنے کی خواہش کا اظہار کیا، جس پر وہ بخوشی راضی ہوگئے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment