امریکہ پاکستان پر اقتصادی پابندی کا حربہ بھی استعمال کرسکتاہے

نجم الحسن عارف
امریکہ نے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ سے محروم رکھنے کا فیصلہ رواں سال کے شروع میں کرلیا تھا، تاہم اس فیصلے کا اعلان نئی منتخب حکومت اور امریکی ڈو مور کے مطالبے پر اس کا رجحان سامنے آنے کے بعد کیا جانا تھا۔ اگلے مرحلے پر پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا حربہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق امریکی حکومت نے پاکستان پر دبائو بڑھانے کا فیصلہ اس امر کے واضح ہوجانے کے بعد کیا ہے کہ نئی حکومت آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی نو مور ڈاکٹرائن کے ساتھ پوری طرح کھڑی ہوگی اور امریکہ کے لئے کوئی مثبت پیش رفت بہت مشکل ہوگی۔ ذرائع کے بقول بھارت میں ٹو پلس ٹو کے ہونے والے اہم اجلاس کے موقع پر پاکستان کے بارے میں امریکی اعلان غیر معمولی ہے۔ ان ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکہ کی کوشش ہوگی کہ دبائو قبول نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے حربے کی طرف آئے اور مشکلات میں گھری نئی حکومت کو زیر کرنے کی کوشش کرے۔ پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے فیصلے کی طرف بڑھنے سے پہلے امریکہ خطے میں اپنے اسٹرٹیجک پارٹنرز بھارت اور افغانستان کو پوری طرح اعتماد میں لینے کا ارادہ رکھتا ہے، کہ پاکستان کو اقتصادی پابندیوں کے علاوہ تزویراتی اور سرحدی دبائو میں لانے کی حکمت عملی بھی اس کے عزائم میں شامل ہے۔ اس دوسرے آپشن کے لئے امریکہ براہ راست نہیں، بلکہ بالواسطہ اقدامات کرنا چاہئے۔
’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی حکومت نے پاکستان کی کولیشن سپورٹ فنڈ کے سلسلے میں قسط روکنے کا فیصلہ یہ سمجھتے ہوئے کیا ہے کہ پاکستان کا دفتر خارجہ بھی پوری طرح پاکستانی عسکری اداروں کی پالیسز سے باہر نکلنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس پس منظر میں ہی پاکستان کے دورے پر رواں ہفتے چند گھنٹوں کیلئے آنے والے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ پینٹاگون کا ایک نمائندہ بھی بطور خاص بھیجا جارہا ہے، تاکہ وہ پاکستان کی اعلیٰ اور اہم ترین مقتدر سطح تک بھی اپنا پیغام مؤثر انداز میں پہنچایا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق پومپیو کے ساتھ پاکستان پہنچنے والے امریکی جنرل پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ ڈو مور کا مطالبہ نہ ماننے کے دو طرفہ مضمرات پر بات کریں گے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اگر میاں نواز شریف کی حکومت دوبارہ بن جاتی تو شاید امریکہ کی طرف سے سخت اقدامات کی نوبت نہ آتی۔ کیونکہ زرداری دور سے پہلے امریکہ کے لئے جس نرمی کا اظہار شروع ہوا تھا، زرداری دور میں مختلف واقعات اور علامات سے اسے آگے بڑھایا گیا اور بعد میں میاں نواز شریف کے دور میں ڈان لیکس کا واقعہ اسی سلسلے کی کڑی ثابت ہوا۔ ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما محمد مہدی نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے امریکی اعلان کے بارے میں کہا ہے کہ ’’مجھے تو یہ لگتا ہے کہ پاکستان اب کولیشن فنڈ کے اجرا یا ترسیل سے زیادہ امریکہ کے ساتھ نئے ارینجمنٹ کی بات کرے گا، کیونکہ امریکی صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد منظر نامہ کافی تبدیل ہوچکا ہے۔ ادھر پاکستان کی سطح پر بھی کافی تبدیلی ہے اور ان حالات میں پاکستان کو اپنی ضروریات کے لئے امریکہ کے ساتھ نئے بندوبست کی ضرورت ہوگی۔
’’امت‘‘ نے امریکہ کی جانب سے پاکستان کی کولیشن سپورٹ فنڈ کی 300 ملین ڈالر کی قسط روکنے کے حوالے سے عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون سے بھی بات کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان اور امریکہ اصولی طور پر اتحادی ملک ہیں، لیکن اس کے باوجود دونوں کے تعلقات میں نشیب و فراز کی بھی ایک لمبی تاریخ ہے۔ آج دو طرفہ تعلقات کے جس نشیب سے ہم گزر رہے ہیں، یہ انتہائی نشیب ہے۔ اس سے پہلے ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی۔ امریکی صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان کو امریکی مطالبات نہ ماننے کی صورت میں براہ راست حملہ اور زمین پر قبضے کی دھمکی بھی دی گئی۔ اس کے مقابلے میں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے زیر قیادت فوج اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ امریکی ڈو مور کا مطالبہ محض پاکستان کو مسلسل بینڈ کرنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ اس کیلئے جس پاکستان نے 123 ارب ڈالر کا اپنا نقصان کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اپنی سرزمین پر سب سے بڑی اور طویل جنگ لڑی ہے۔ 70 ہزار شہریوں اور 7 ہزار فوجی افسروں و اہلکاروں کی جانیں قربان کی ہیں۔ اس سے ڈو مور‘‘ کا مطالبہ نامناسب ہے‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے کہا کہ ’’امریکی حملے کی دھمکی کے باوجود یہ تو نہیں ہوگا کہ امریکہ براہ راست حملہ کردے گا۔ بلکہ اس کا ہمیشہ طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ یا تو پراکسی جنگ کا انتخاب کرتا ہے یا اپنے مقاصد کسی دوسرے کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ پاکستان کو بھارت کے توسط سے کسی محدود جنگ میں دھکیلنے کی کوششیں کرسکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے امریکہ اور بھارت پاکستان کے خلاف دبائو کا مشترکہ بیانیہ آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کو تو ہمیشہ صاف اور کھلے لفظوں میں کہا ہے کہ ہم تیار ہیں۔ پاکستان نے بھارت کی اسٹرٹیجک اسٹرائیکس کی تھیوری کو بھی عملاً فارغ کردیا ہے، کہ پاکستان نے اپنے ٹیکنیکل ہتھیاروں کی سہولت حاصل کی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بھارت نے پاکستان میں ٹارگیٹڈ آپریشن کے لئے پہلے 8 اہداف طے کئے اور بعد ازاں ان اہداف کی تعداد 15 تک بڑھالی‘‘۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے مزید کہا کہ ’’امریکہ سمجھتا ہے کہ نئی حکومت کو پاکستان میں اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے میں اس پر اقتصادی دبائو بڑھا کر اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وزیر اعظم نے امریکہ سامنے جو بیانیہ دیا ہے اور جی ایچ کیو میں طویل بریفنگ کے بعد جس طرح سول اور ملٹری قیادت کی ملکی مسائل اور درپیش چیلنجوں کے حوالے سے ایک سوچ اور اپروچ سامنے آئی ہے، یہ امریکہ کیلئے اچھا شگون نہیں۔ امریکہ ہمیشہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے درمیان اختلافات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں رہا ہے۔ لیکن اب ایک طرف جنرل قمر باجوہ نے نو ڈو مور‘‘ کی ڈاکٹرائن کو آگے بڑھایا ہے تو دوسری جانب عمران خان نے بطور وزیر اعظم ایک نئی بات کہی ہے کہ ہم اب امریکہ کے اتحادی امن کے لئے ہوں گے، جنگ کے لئے نہیں۔ اس صورت حال میں امریکہ کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے‘‘۔ اس سوال پر کہ ’’کیا پاکستان 300 ملین ڈالر کے رقم کا نقصان برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہے؟‘‘۔ بریگیڈیئر آصف ہارون نے کہا کہ ’’اس میں شک نہیں کہ ہمارے اقتصادی مسائل ہیں۔ امریکہ کو بھی اس کا اندازہ ہے۔ امریکہ آئی ایم ایف کو اس تناظر میں اپنے مقاصد کے لئے بروئے کار لانے کی کوشش میں ہوگا۔ لیکن پاکستان کی حکومت نے ابھی تک اس بارے میں کسی عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا کہ آئی ایم ایف سے فوری رجوع کرے۔ بلکہ ساتھ ہی دوسرے آپشنز پر بھی غور جاری ہے، رابطے بھی ہورہے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان نے امریکہ سے دشمنی لینے کی بھی بات نہیں کی۔ بس یہ کہا ہے کہ ہم نے بہت کچھ کرلیا۔ اب دوسرے لوگ بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ اس سلسلے میں پاکستان ہر سطح پر بات کرتا ہے اور کرتا رہے گا‘‘۔

Comments (0)
Add Comment