حصہ اول
محترمہ امینہ جناں امریکی نو مسلم ہیں، جو پہلے عیسائی مبلغہ تھیں۔ مگر قرآن کریم نے ان کی کایا پلٹ دی۔ اب دین حق کی دعوت و تبلیغ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ وہ اپنے قبول اسلام کی داستان کرتے ہوئے بتاتی ہیں: میں جنوری 1945ء میں امریکہ کی ریاست لاس اینجلس کے علاقے ویسٹ میں پیدا ہوئی۔ میرے والدین پروٹسنٹ عیسائی تھے اور ننھیال و ددھیال دونوں طرف مذہب کا بڑا چرچا تھا۔ میں اسکول کے آٹھویں گریڈ میں تھی کہ میرے والدین کو فلوریڈا منتقل ہونا پڑا اور باقی تعلیم وہیں مکمل ہوئی۔ میری تعلیمی حالت بہت اچھی تھی، خصوصاً بائبل سے مجھے خاص دلچسپی تھی اور اس کے بہت سے حصے مجھے زبانی یاد تھے۔ اس سلسلے میں، میں نے متعدد انعامات بھی حاصل کیے۔ میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی اور ویمن لبریشن موومنٹ (تحریک آزادی نسواں) کی پر جوش کارکن تھی۔
ہائی اسکول کی تعلیم ختم ہوئی تو میری شادی ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی میں ماڈلنگ کے پیشے سے منسلک ہوگئی۔ خدا نے مجھے اچھی شخصیت عطا کی تھی اور میں خوب محنت کرتی تھی، اس لیے میرا کاروبار خوب چمکا۔ پیسے کی ریل پیل ہوگئی۔ شوفر، بہترین گاڑیاں، غرض آسائش کا ہر سامان میسر تھا۔ حالت یہ تھی کہ بعض اوقات ایک جوتا خریدنے کے لیے میں ہوائی سفر کر کے دوسرے شہر جاتی تھی۔ اس دوران میں، میں ایک بیٹے کی ماں بھی بن گئی، مگر سچی بات ہے کہ ہر طرح کے آرام و راحت کے باوجود دل مطمئن نہ تھا۔ بے سکونی اور اداسی جان کا گویا مستقل آزار بن گئی تھی اور زندگی میں کوئی زبردست خلا محسوس ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے ماڈلنگ کا پیشہ ترک کر دیا۔ دوبارہ مذہبی زندگی اختیار کر لی اور مختلف تعلیمی اداروں میں مذہبی تبلیغ کی رضاکارانہ خدمات انجام دینے لگی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے مزید تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ خیال تھا کہ اس بہانے شاید روح کو کچھ سکون ملے گا۔ اس وقت میری عمر تیس سال تھی۔
اسے خوش قسمتی ہی کہیے کہ مجھے ایک ایسی کلاس میں داخلہ ملا، جس میں سیاہ فام اور ایشیائی طالب علموں کی خاصی بڑی تعداد تھی۔ بڑی پریشانی ہوئی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ مزید گھٹن یہ دیکھ کر محسوس ہوئی کہ ان میں خاصے مسلمان تھے اور مجھے مسلمانوں سے سخت نفرت تھی۔ عام یورپین آبادی کی طرح، میرے خیال میں بھی، اسلام وحشت و جہالت کا مذہب تھا اور مسلمان غیر مہذب، عیاش، عورتوں پر ظلم کرنے والے اور اپنے مخالفوں کو زندہ جلا دینے والے لوگ تھے۔ امریکہ اور یورپ کے عام مصنفین اور مؤرخین یہی کچھ لکھتے آ رہے ہیں۔ بہرحال شدید ذہنی کوفت کے ساتھ تعلیم شروع کی، پھر اپنے آپ کو سمجھایا کہ میں ایک مشنری ہوں۔ کیا عجب کہ خدا نے مجھے ان ’’کافروں‘‘ کی اصلاح کے لیے یہاں بھیجا ہو، اس لیے مجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ میں نے صورت حال کا جائزہ لینا شروع کیا تو حیرت میں مبتلا رہ گئی کہ مسلمان طالب علموں کا رویہ، دیگر سیاہ فام نوجوانوں سے بالکل مختلف تھا۔ وہ شائستہ، مہذب اور با وقار تھے۔ وہ عام امریکی نوجوانوں کے برعکس نہ لڑکیوں سے بے تکلف ہونا پسند کرتے، نہ آوارگی اور عیش پسندی کے رسیا تھے۔ میں تبلیغی جذبے کے تحت ان سے بات کرتی، ان کے سامنے عیسائیت کی خوبیاں بیان کرتی تو وہ بڑے وقار اور احترام سے ملتے اور بحث میں الجھنے کے بجائے مسکرا کر خاموش ہو جاتے۔
میں نے اپنی کوششوں کو یوں بے کار جاتے دیکھا تو سوچا کہ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ اس کے نقائص اور تضادات سے آگاہ ہو کر مسلمان طالب علموں کو زچ کر سکوں، مگر دل کے گوشے میں یہ احساس بھی تھا کہ عیسائی پادری، مضمون نگار اور مؤرخ تو مسلمانوں کو وحشی، گنوار، جاہل اور نہ جانے کن کن برائیوں کا مرقع بتاتے ہیں، لیکن امریکی معاشرت میں پلنے بڑھنے والے ان سیاہ فام مسلمان نوجوانوں میں تو ایسی کوئی برائی نظر نہیں آتی، بلکہ یہ باقی سب طلبہ سے مختلف و منفرد پاکیزہ رویے کے حامل ہیں، پھر کیوں نہ میں خود اسلام کا مطالعہ کروں اور حقیقت ِ حال سے آگاہی حاصل کروں۔ (جاری ہے)