ناموس رسالت کی خاطر جان لٹادی

مغلوں کے آخری دور کا واقعہ ہے کہ حقیقت رائے نامی ایک ہندو شخص نے نبی کریمؐ اور آپؐ کی لخت جگر حضرت سیدہ فاطمہؓ کی شان میں گستاخی کی تو اس وقت پنجاب کے گورنر زکریا خانؒ نے اس شیطان ’’حقیقت رائے‘‘ گستاخ رسولؐ کو قتل کروا دیا۔ مغلوں کے بعد جب پنجاب پر سکھوں کا قبضہ ہوا تو ہندوؤں نے حقیقت رائے کا بدلہ لینے کیلئے اس عاشق رسولؐ گورنر زکریا خان اور ان کے رشتہ داروں کو شہید کروایا۔ لیکن عاشقان رسولؐ نے اپنی عزیز جانوں کی پروا کب کی، وہ جان تو بڑی قیمتی ہوگی، جو ناموس مصطفیٰؐ پر قربان ہوجائے۔
1927ء میں لاہور کے ایک پبلشر راج پال نامی شخص نے ایک گستاخانہ کتاب شائع کی، کتاب پر مصنف کا نام درج نہیں تھا۔ اس کتاب سے مسلمانوں کے اشتعال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے پبلشر اور مصنف کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے انہیں تحفظ فراہم کیا۔ (جیسا کہ اس دور میں گستاخان رسولؐ کو دشمنان اسلام تحفظ دے رہے ہیں) لیکن شمع رسالت کے پروانے رکاوٹوں کو کہاں خاطر میں لاتے ہیں۔
صحیح تحقیق و چھان بین کے بعد (کہ واقعی راج پال نام شخص نے یہ کتاب لکھی ہے) ایک دودھ فروش، خدا بخشؒ نے راجپال پر قاتلانہ حملہ کردیا، مگر انہیں کامیابی نہ ہوئی اور خدا بخشؒ کو گرفتار کرکے سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔ دوسرا حملہ اس گستاخ رسولؐ پر عبد العزیز نامی شخص نے کیا، لیکن اس حملے میں بھی راج پال کا دوست مارا گیا اور اس مرد مجاہد اور عاشق رسولؐ کو چودہ سال قید ہوئی۔ ایک دن حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے لاکھوں فرزندان توحید کے مجمع عام میں اپنی ایمان افروز اور ولولہ انگیز تقریر کے دوران فرمایا کہ بت پرست کافر راج پال نے حضور اقدسؐ کی شان میں بدترین توہین کی اور ایک کتاب بھی لکھ ڈالی۔ تو اس جم غفیر میں بیٹھے ہوئے ایک نوجوان کی غیرت و حمیت نے اس قدر جوش مارا کہ وہاں سے اٹھ کر سیدھا ایک دکان پر گیا۔ تیز دھار چھری خریدی اور اسی وقت وہاں پہنچا، جہاں وہ گستاخ رسولؐ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نوجوان نے جب اس کے اردگرد بیٹھے ہوئے لوگوں سے تصدیق کر لی، یہی راج پال نامی شخص ہے، جس نے کتاب لکھی ہے۔ مسلمان کی یہی صفت ہے کہ وہ جو کام کرتا ہے، پوری تحقیق و تصدیق کے بعد ہی کرتا ہے، تاکہ کسی پر غلط فہمی و زیادتی نہ ہو، پھر جب انہیں یقین ہوگیا بالکل یہی وہ ناپاک شخص ہے، پھر نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراً راجپال کے ناپاک سینے میں چھری اتار دی۔
اس طرح اس گستاخ کو جہنم رسید کرنے کے بعد اپنے گھر پہنچا، وضو کیا، اپنے کمرہ میں سربجود ہو کر خدا جل شانہ کا شکر ادا کیا۔ اس رات ان کے والد نے بیٹے کے کمرے میں دیکھا کہ چکا چوند بہت تیز روشنی ہے۔ ایک عجیب سی روشنی جو آج سے پہلے انہوں نے نہیں دیکھی تھی۔ بیٹے نے صبح خود بتایا کہ رات کو میرے گھر میں حضور اقدسؐ تشریف لائے، میرا سر اپنی گود مبارک میں لیا، پیار فرمایا اور یہ خبر دی کہ تم عنقریب میرے پاس جنت الفردس میں پہنچ جاؤ گے۔ یہ نوجوان کون تھا، ایک غریب لوہار کا بیٹا جو تاریخ میں غازی و شہید علم دینؒ کے نام نامی اسم گرامی سے مشہور ہے۔ اسی نوجوان مرد مجاہد کے بارے میں سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے کہا تھا کہ ہم ساری عمر حضورؐ کی محبت و عقیدت میں خالی خولی تقریریں کرتے رہے، لیکن ایک لوہار کا بیٹا ہم سے بازی جیت گیا۔ غازی علم دینؒ اس اپنی موت پر خوش تھے۔ وہ محبت رسولؐ کے امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ عدالت نے انہیں سزائے موت دی تھی۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔
ارشاد خداوندی ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں لیکن تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے۔
1933ء میں ایک ہندو نتھورام نے ’’ہسٹری آف اسلام‘‘ نامی کتاب لکھی، جس میں اس نے سرور کائناتؐ کی شاہ اقدس میں گستاخی کی تھی۔ اس پر مقدمہ چلا، لیکن عدالت نے اسے معمولی سزا سنائی۔ اسی وقت عدالت میں ایک تانگے والا عبد القیومؒ بھی موجود تھا۔ اس خدا کے شیر اور نبی اکرمؐ کے سچے غلام نے بھری عدالت میں اس خبیث گستاخ رسولؐ ہندو کو چاقو کے پے در پے وار کرکے ادھر ہی قتل کر دیا، پھر اس پر مقدمہ چلا، عدالت نے عبدالقیومؒ کو سزائے موت سنائی۔
سزا سننے کے بعد عبدالقیومؒ نے کہا جج صاحب میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ مجھے موت کی سزا سنا دی ہے۔ اس خدا کے بندے نے کہا میری یہ حقیر سی ایک جان کس گنتی میں ہے۔ اگر میرے پاس کئی لاکھوں جانیں بھی ہوتیں تو میں ناموس رسالت مآبؐ پر قربان کر دیتا، ابھی ہم حضور اکرمؐ کے غلام زندہ ہیں، ہمارے ہوتے ہوئے کسی کی کیا جرأت ہے کہ وہ ہمارے آقا مدنیؐ کی توہین پر کتابیں لکھے۔ یہ تھے ہمارے اکابر و اسلاف جنہوں نے دینی حمیت و غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے گستاخان رسولؐ کے غلیظ و ناپاک وجود سے خدا کی سرزمین کو پاک کر دیا۔
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحاؐ کی حرمت پرخدا شاہد ہے کہ کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا (گلدستہ واقعات)

Comments (0)
Add Comment