پہلی قسط
محمد قیصر چوہان
باڈی بلڈنگ کے کھیل میں پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے یحییٰ بٹ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے 1994ء میں مسٹرایشیا کا ٹائٹل جیت کر تاریخی کارنامہ سر انجام دیا اور عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔ قبل ازیں انہوں نے 1984ء میں انڈونیشیا میں ہونے والے مقابلوں میں جونیئر مسٹر ایشیا کا ٹائٹل جیتنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ 1985ء میں وہ پہلی مرتبہ مسٹر پاکستان بنے۔ جبکہ 1989ء میں جاپان میں منعقد ہونے والی مسٹر ایشیا چیمپئن شپ میں 85 کلو گرام کی کلاس میں انہوں نے 2 برائونز میڈل حاصل کر کے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند کیا۔ یحییٰ بٹ نے پانچ مرتبہ مسٹر پاکستان اولمپیا کا ٹائٹل جیتا۔ وہ پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن کے سینئر نائب صدر اور پنجاب باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ’’امت‘‘ نے سابق مسٹر پاکستان و مسٹر ایشیا یحییٰ بٹ سے خصوصی ملاقات کی۔ ان کی کہانی خود ان کی زبانی نذر قارئین ہے۔
’’میرے آبا و اجداد کا تعلق کشمیر سے ہے۔ قیام پاکستان سے قبل میرے محمد حفیظ والد کشمیر سے ہجرت کر کے لاہور آکر آباد ہو گئے۔ لاہور میں ابتدائی طور پر اپنے ماموں کے گھر رہائش اختیار کرنے کے بعد والد محترم نے سلطان پورہ کے علاقے میں اپنا گھر بنا لیا۔ آج بھی ہم اس گھر میں رہتے ہیں۔ میرے والد اور میرے تایا محمد رفیق بٹ لاہور آنے کے بعد کلاتھ مرچنٹ کے کاروبار سے منسلک ہوئے۔ ہماری کپڑے کی دکان نولکھا بازار میں تھی۔ میری پیدائش 23 اپریل 1965ء کو لاہور میں ہوئی۔ ہم پانچ بھائی اور 2 بہنیں ہیں۔ میں سب سے بڑا ہوں۔ ہمارا چونکہ جوائنٹ فیملی سسٹم تھا، اس لئے میرے تایا کے تین بیٹے اور ہم سب گھر میں اکٹھے رہتے تھے۔ ہم سب بھائیوں اور تایا زاد بھائیوں کی آپس میں بڑی گہری دوستیاں تھیں اس وجہ سے ہم گلی محلے میں آوارہ گردی سے بچے رہے۔ ہم سب گھر میں آپس میں کھیلا کرتے تھے۔ میرے والد صاحب کو پہلوانی کافی پسند تھی اس لیے ان کی خواہش تھی کہ ان کے بیٹوں میں سے کوئی ایک پہلوان بنے۔ میں چونکہ گھر میں سب سے بڑا تھا اس لیے میرے ابو مجھے پہلوان بننے کی ترغیب دیتے جب میں چھٹی جماعت میں پہنچا تو والد صاحب باقاعدگی سے مجھے صبح ڈنڈ بیٹھک لگوایا کرتے تھے۔ ان دنوں میں 30 ڈنڈ اور 50 بیٹھک لگاتا تھا۔ یہ میری روٹین تھی۔ جب امی میری حالت دیکھتیں تو والد صاحب کو کہتیں کہ میں بچوں کو صاف ستھرا رکھتی ہوں اور ان کو پینٹ کوٹ اور ٹائی لگا کر اسکول بھیجتی ہوں کیونکہ میری خواہش ہے کہ میرے بیٹے پڑھ لکھ کر افسر بنیں اور آپ بچوں کو خراب کر رہے ہیں ان کو پہلوان بنانے کے چکر میں مٹی میں روندتے ہیں۔ میری پہلوانی کی پریکٹس کرنے پر والدین کی آپس میں کئی مرتبہ تکرار ہوئی۔ میں ڈون باسکو اسکول میں پڑھتا تھا، وہاں ایک پیریڈ اسپورٹس کیلئے مختص تھا۔ اس میں تمام لڑکے کوئی نہ کوئی گیم ضرور کھیلتے تھے تو میں نے بھی اسکول گیمز میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ باسکٹ بال، والی بال اور باکسنگ مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ان دنوں محمد علی باکسر کی شہرت کے پوری دنیا میں چرچے تھے۔ جب ان کا مقابلہ ہوتا تو ڈون باسکو اسکول میں ٹی وی کا انتظام کیا جاتا اور یوں اسکول کے تمام طالب علم اور استاتذہ محمد علی کا مقابلہ دیکھتے۔ محمد علی کے مقابلے دیکھتے دیکھتے میں ان کے کھیل کا دیوانہ ہو گیا اور مجھے باکسنگ کے کھیل سے عشق ہو گیا۔ مجھ پر محمد علی کی طرح نامور باکسر بننے کا بھوت سوار ہو گیا۔ انہی دنوں ہمارے اسکول میں اسپورٹس کے استعمال شدہ سامان کی نیلامی ہوئی تو میں نے اپنے والد محترم سے 30 روپے لیے اور ان پیسوں سے استعمال شدہ باکسنگ گلوز کی 2 جوڑیاں خریدلیں۔ میں نے آٹے کے تھیلے کو لے کر اس میں ریت بھر دی، اس کو رسی کی مدد سے لٹکا دیا اور پھر باکسنگ گلوز پہن کر محمد علی جیسا باکسر بننے کی پریکٹس شروع کر دی۔ جس جگہ پریکٹس کرتا اس کے پیچھے کچھ ہی فاصلے پر دیوار تھی۔ میں جب جوش میں آکر ریت کے تھیلے کو مکا مارتا تو وہ تیزی سے واپس آکر سیدھا میرے منہ پر لگتا اور میرا سر پیچھے دیوار کے ساتھ ٹکراتا۔ اس طرح کئی مرتبہ میرے منہ اور سر پر چوٹ لگی۔ جس پر والدہ سے جوتے بھی کھائے لیکن اس کے باوجود میرے جنون میں کمی نہ آئی۔ میرے والد اور تایا نے کبھی کسی بچے کی پٹائی نہیں کی تھی۔ لیکن ان کا خوف ہمیشہ دل میں رہتا تھا۔ اگر کبھی اسکول کا کام نہ کرتے تو والدہ کہتی تھیں کہ تمہارے والد کو شکایت لگائوں گی کہ آج تم نے ہوم ورک نہیں کیا تو ڈر کے مارے کئی مرتبہ بخار چڑھ جاتا تھا۔ جب والد صاحب یا تایا جی ناراض ہوتے تو سلام کا جوب بلند آواز میں نہیں دیتے تھے۔ بچپن میں ہم سب بھائیوں پر گھر سے باہر نکلنے پر پابندی تھی۔ اس لیے ہم گھر میں رہ کر ہی کھیلتے کودتے تھے، گھر کی دیواروں میں ہونے والے چھوٹے چھوٹے سوراخوں میں چڑیوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے ہم دیوار پر چڑھ کر ان کے گھونسلوں میں موجود انڈوں کو دیکھتے تو جب والدہ کی نظر ہم پر پڑتی تو وہ ہمیں ڈانٹی تھیں کہ اگر کسی بچے نے انڈے کو ہاتھ لگا دیا تو چڑیا انڈے کو نیچے پھینک دے گی۔ ایک مرتبہ بھائی نے انڈے کو ہاتھ لگا دیا تو اگلے روز جب ہم صبح اٹھے تو دیکھا کہ انڈہ زمین پر ٹوٹا ہوا پڑا تھا۔ اس کے بعد ہم نے کبھی چڑیا کے انڈوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔ کئی مرتبہ انڈوں سے چڑیا کے بچے نکلتے ہوئے دیکھے کئی مرتبہ وہ بچے گھونسلوں سے باہرنکل کر نیچے گر جاتے تو ہم ان بچوں کودوبارہ گھونسلے میں رکھ دیتے تھے۔ بچپن میں مجھے بارش بڑی اچھی لگتی تھی۔ بارش میں نیکر پہن کر گھر کی چھت پر خوب نہایا کرتے تھے۔ بارش کی بوندیں جب پاک سر زمین کی مٹی پر پڑتی اس کے بعد زمین سے جو سوندھی سوندھی خوشبو آتی وہ مجھے بے حد پسند تھی۔ بارش میں نہانے کا شوق پورا کرنے کے بعد جب نیچے صحن میں آتے تو والدہ سے خوب جوتے کھاتا تھا۔
میں نے قرآن پاک کی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی، حالانکہ میری والدہ محترمہ پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن وہ قرآن پاک کی برکت سے اردو پڑھنا جانتی تھیں۔ میری ان پڑھ والدہ کے ساتوں بچے آج گریجویٹ ہیں۔ میں نے کبھی اپنی والدہ کو سوئے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر صبح جلدی آنکھ کھل گئی تو دیکھا کہ والدہ محترمہ جائے نماز بچھا کر نماز ادا کر رہی ہیں اور ساتھ چولہے پر کشمیری نمکین چائے چڑھا رکھی ہے۔ میں اکثر دوستوں کی محفل میں کہتا ہوں کہ یار ہماری مائیں ان پڑھ تھیں لیکن آج ہماری جو بیویاں ہیں وہ پڑھی لکھی جاہل ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اگر بچپن میں کسی بچے کو بخار ہو جاتا تو والدہ گھر میں موجود دیسی مرغی کا انڈہ ابال کر اس کو کھلا دیتیں اور دیسی گھی کو گرم کر کے اس سے سینے اور پیٹھ پر مساج کر دیتیں، جس سے صبح بخار ٹھیک ہو جاتا تھا۔والدہ محترمہ نماز پڑھنے کے بعد ہم سب بھائیوں پر پھونکیں مارتی اور کامیابی کی دعائیں کرتی تھیں۔ اگر کبھی کان میں درد ہوتا تو لہسن کو تیل میں جلا کر وہ تیل کان میں ڈال دیتی جس سے اگلے دن کان کا درد ختم ہو جاتا۔ سردیوں کے موسم میں والدہ محترمہ کا معمول تھا کہ وہ کالے چنوں کا شوربا بنا کر رات کو سونے سے پہلے سب بچوں کو ایک ایک پیالی پلاتی تھیں اور بعض اوقات میں کالے چنے کے شوربے میں روٹی ڈبو کر کھاتا تھا۔ بچپن میں قرآن پاک پڑھنے کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے نماز بھی ادا کرتا تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ 9 برس کی عمر میں والدہ محترمہ کی فرمائش پر روزہ رکھا تھا۔ جمعہ کا دن تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا، دن میں کئی مرتبہ پیاس لگی لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمت دی اور والدہ نے بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں والدین ہمیں روزہ رکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔ تایا، تائی، ماموں، خالہ، پھوپھو وغیرہ سے جو عیدی ملتی تھی میں اس کو والدہ کے پاس جمع کرا دیا کرتا تھا اور پھر ان پیسوں سے کبھی نئے جوتے اور کپڑے وغیرہ خرید لیا کرتے تھے۔ عید الاضحیٰ پر والد صاحب کے ساتھ بکرا منڈی جا کر اپنی پسند کا بکرا خریدا کرتا تھا۔ جبکہ چھوٹا بھائی ادریس بکرے کو سجا کر گلی میں گھمایا کرتا تھا۔ عید کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے والد محترم اور تایا کے ساتھ مل کر قربانی کرتے، گوشت بنانے اور بانٹے میں مدد کرتا تھا۔ ڈون باسکو اسکول میں پڑھائی کے دوران میں کلاس روم میں سنٹر والے پنجوں پر بیٹھتا تھا۔ پڑھائی میں نارمل تھا، ریاضی کے مضمون سے سخت نفرت تھی۔ کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے کی وجہ سے اسکول میں اساتذہ مجھے خصوصی لگاؤ رکھتے تھے۔ میں اسکول کی طرف سے جمناسٹک کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتا تھا۔ ظفر اللہ خان صاحب ڈون باسکو اسکول میں اسپورٹس انچارج تھے، ہم تین دوستوں نے جا کر ان سے کہا کہ سر آپ ہمیں باکسنگ کی ٹریننگ دیں تو انہوں نے جواب دیا کہ بیٹا ڈبل روٹی کھانے والے کسی کو مکا نہیں مار سکتے۔ یہ آپ لوگوں کے بس کا کھیل نہیں ہے، اس کے بعد میں نے یہ بات چیلنج کے طور پر لی کہ اب سر کو باکسر بن کردکھانا ہے تو پھر باکسنگ میں سخت محنت شروع کر دی۔
محمد علی باکسر کے بعد بروسلی کا دور آیا۔ ان دنوں ہر بچے کے ہاتھ میں نان چیک ہوتا اور ان پر مارشل آرٹس کے ماسٹر بروسلی بننے کا بھوت سوار تھا۔ میں نے کبھی بروسلی بننے کے بارے میں نہیں سوچا البتہ میں بروسلی کے بارے میں لکھی جانے والی کتابیں ضرور شوق سے پڑھتا تھا۔ بروسلی کی وجہ سے میں نے بھی مارشل آرٹس والوں کی طرح مضبوط جسم بنانے کے حوالے سے ہیلتھ کلب جوائن کرنے کیلئے والدین سے اجازت طلب کی۔ تاہم انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میٹرک پاس کرنے تک تم کلب جوائن نہیں کر سکتے۔ بچپن میں 14 اگست کا دن بڑے جوش و خروش سے منایا کرتے تھے۔ والد صاحب بازار سے جھنڈیاں خرید کر گھر لا دیتے۔ ہم سب بھائی اور تایا کے بیٹے مل کر آٹے کی مدد سے لیوی بنا کر جھنڈیوں کو دھاگے کے ساتھ لگاتے۔ پھر ان لڑیوں سے گھر کو سجاتے بعد میں والد صاحب کے ساتھ مل کر ایک بڑا سا سبز ہلالی پرچم گھر کی چھت پر لگا دیتے۔ پھر سب بھائی اکٹھے ہو کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے۔ جھنڈیاں لگانے کیلئے ہم جو آٹے کی لیوی بناتے جب وہ بچ جاتی تو اس کو دیکھ کر والدہ کہتی تھیں کہ تم بچوں نے جھنڈیاں لگانے کے شوق میں گھر کا سارا آٹا ختم کر دیا ہے، تو پھر والدہ سے جوتے بھی پڑتے تھے۔ ڈون باسکو سے میٹرک کا امتحان سائنس کے مضمون میں پاس کرنے کے بعد میں فارغ تھا تو والدین سے اجازت لینے کے بعد میں نے 1981ء میں باجوہ ہیلتھ جم جوائن کر لیا۔ اعظم باجوہ صاحب اس وقت مسٹر پاکستان تھے اور وہ اس جم کے مالک اور کوچ بھی تھے۔ میں جم میں ٹریننگ کرنے میں مصروف تھا کہ کوئٹہ سے واپسی پر اعظم باجوہ صاحب نے وہاں موجود دوسرے لڑکوں سے پوچھا کہ وہ جو سامنے لڑکا شلوار قمیض پہن کر ٹریننگ کر رہا ہے وہ کون ہے؟ جب میں ان کے پاس گیا تو اعظم باجوہ صاحب نے کہا کہ تم شلوار قمیض پہن کر آگئے ہو کل سے ٹریک سوٹ پہن کر آنا۔ میں نے ان کو بتایا کہ سر جی میرے پاس ٹریک سوٹ نہیں ہے میں تو ایسے ہی ٹریننگ کرتا ہوں۔ جم میں حنیف صاحب بھی کوچنگ کرتے تھے انہوں نے اعظم باجوہ کو بتایا کہ یہ لڑکا میرے ساتھ ٹریننگ کر رہا ہے اور اچھا لڑکا ہے۔ پھر میں نے والد صاحب سے پیسے لے کر اپنے کزن کے ساتھ لنڈے بازار سے ایک ٹریک سوٹ خریدا۔ پھر وہ پہن کر ٹریننگ کرنے لگا۔ ابھی مجھے تقریباً دس دن ہی ہوئے تھے کہ انٹر اسکولز اور انٹر کالجز باڈی بلڈنگ چمپئن شپ منعقد ہونے والی تھی۔ اس حوالے سے ایک لیٹر ہمارے جم کو ملا، جس پر اعظم باجوہ صاحب نے ٹریننگ کے دوران سب لڑکوں سے پوچھنے لگے کہ تم میں سے اسکول اور کالج میں کون کون سے لڑکے پڑھتے ہیں تو میں نے بھی ہاتھ کھڑا کر دیا اور بتایا کہ ابھی تھوڑے ہی دن پہلے میں نے میٹرک کے پیپر دیئے ہیں۔ باجوہ صاحب سب لڑکوں کا جسم چیک کرنے لگے اور پھر مجھ سے پوچھا کہ بیٹا تم پہلے کسی جم میں ٹریننگ کرتے تھے تو میں نے ان کو بتایا کہ میرا یہ پہلا جم ہے، البتہ پہلوانوں کی طرح ڈنڈ اور بیٹھکیں وغیرہ ضرور لگاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ میں نے ان کو بتایا کہ نہیں میں سچ بتا رہا ہوں۔ لیکن انہوں نے میری باڈی کی بڑی تعریف کی اور میرا نام انٹر اسکولز باڈی بلڈنگ چمپئن شپ کیلئے بھجوا دیا۔ میں نے اس ایونٹ میں پانچویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ 15 دن کے بعد جونیئر مسٹر لاہور کا ایونٹ تھا، میں نے بھی حصہ لیا اور اپنی کلاس میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد میرا باجوہ ہیلتھ جم میں نام بن گیا۔ میں اعظم باجوہ صاحب سمیت دیگر سینئر لڑکوں کی نظروں میں آگیا۔ میں نے جب جم جوائن کیا تھا تو کوچ اعظم صاحب نے مجھے کہا تھا کہ صبح 6 دیسی انڈے کھانے ہیں ساتھ میں پنیر اور ڈبل روٹی کھانی ہے۔ جبکہ میرے والد صاحب کا کہنا تھا کہ گاما پہلوان کہتے تھے کہ پہلوان بننے کیلئے دودھ دہی کثرت سے استعمال کی جائے۔ اس لئے میں نے میٹرک تک دودھ اور دہی استعمال کی تھی۔ لیکن جب جم گیا تو وہاں کی خوراک بالکل مختلف تھی۔ میں نے جب اس خوراک کے بارے میں اپنے والد محترم کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ جوانی گرم ہوتی ہے اوپر سے ورزش گرم اور پھر دیسی انڈے بھی گرم یہ بتا تیرا استاد کون ہے مجھے اس کے پاس لے کر چل۔ میں اگلے دن شام کو والد صاحب کو باجوہ ہیلتھ جم لے گیا۔ اعظم باجوہ صاحب سے ملاقات کروائی۔ باجوہ صاحب نے والد محترم سے کہا کہ چچا آپ کا زمانہ گزر گیا ہے۔ ویسے بھی باڈی بلڈنگ اور پہلوانی میں بڑا فرق ہے۔ باڈی بلڈنگ میں جسم کی پوزنگ ہوتی ہے جبکہ پہلوانی میں دو پہلوان آپش میں دنگل کرتے ہیں لڑتے ہیں، زور لڑاتے ہیں۔ میں خوش تھا کہ مجھے اعظم باجوہ صاحب جیسے مخلص، محنتی اور ایماندار باڈی بلڈنگ کے کھیل سے بے پناہ محبت کرنے والے استاد ملے ہیں۔
1981ء میں میٹرک کارزلٹ آیا تو میں اچھے نمبروں سے پاس ہوا تھا۔ میں نے والدین سے کہا کہ میں نے گورنمنٹ کالج میں پڑھنا ہے اگر مجھے وہاں داخلہ نہ ملا تو میں آگے نہیں پڑھوں گا۔ میں نے جی سی کالج کا داخلہ فارم پُر کرکے جمع کروا دیا۔ اس کے بعد میں سول لائنز کالج میں گیا اور وہاںسے بھی داخلہ فارم حاصل کئے اور جب فارم جمع کروا کر کالج کے باہر آیا تو دیگر دوستوں سے باتیں کرنے لگا۔ ان دنوں سول لائنز کالج کے اسپورٹس انچارج بابر صاحب تھے، میں نے پہلے گورنمنٹ کالج میں ٹرائلز دیئے اور پھر سول لائنز کالج کے ٹرائلز تھے تو میں نے وہاں بھی ٹرائلز دیئے۔ ٹرائلز دینے کے بعد جب میں باہر دیگر دوستوں کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا تو میں نے کہا کہ اگر مجھے سول لائنز کالج میں داخلہ مل بھی گیا تو میں یہاں نہیں پڑھوں گا۔ میں جی سی میں ہی داخلہ لینا چاہتا ہوں۔ بابر صاحب نے میری باتیں سن لیں اور لڑکا بھجوا کر مجھے بلوا لیا۔ اور کہنے لگے کہ بیٹا تم ابھی کالج میں داخل ہو گئے ہو لہٰذا داخلہ فیس جمع کروا دو۔ میں نے سوچا یہ رزلٹ کیسے آگیا میں نے جی سی میں ٹرائلز دیئے تھے تو ابھی تک ان کا رزلٹ نہیں آیا۔ بابر صاحب نے کہا کہ بیٹا کیا سوچ رہے ہو اگر تم آج فیس جمع کرا دو تو تم داخل ہو جائوں گے ورنہ نہیں۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے بابر صاحب کو جواب دیا کہ سر میں سول لائنز کالج میں پڑھنا نہیں چاہتا۔ میں نے تو صرف جی س میں پڑھنا ہے۔ میں جب سول لائنز کالج سے واپس گھر گیا تو سوچتا رہا کہ اگر جی سی کی لسٹ میں نام نہ آیا تو کیا کروں گا؟ پھر جب شام کو جم گیا تو اعظم باجوہ صاحب کو سارا واقعہ سنایا تو انہوں نے کہا کہ تم دل چھوٹا نہ کرو، تم ایک آئوٹ اسٹینڈنگ باڈی بلڈر ہو جی سی کی لسٹ میں تمہارا نام ٹاپ آف دی لسٹ ہو گا۔ اگلے دن سول لائنز کالج کے اسپورٹس انچارج بابر صاحب باجوہ ہیلتھ جم آگئے اور اعظم باجوہ صاحب سے کہنے لگے کہ آج ایک استاد دوسرے استاد کے پاس چل کر آیا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ مجھے مایوس نہیں لوٹنے دیں گے۔ میں آپ کے سامنے جھولی پھیلاتا ہوں کہ اس لڑکے کو میری جھولی میں ڈال دیں۔ میں اس لڑکے کے امتحانات کا بھی خیال رکھوں گا اور مقابلوں میں شرکت کیلئے اس کو ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھی دیا کروں گا۔ اعظم باجوہ صاحب نے ان سے کہا کہ بابر صاحب پڑھنا تو اس لڑکے نے ہے تو آپ اس لڑکے سے خود ہی پوچھ لیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ میں نے بابر صاحب سے کہا کہ میں خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا میں اپنے والد صاحب سے بات کروں گا وہ جو فیصلہ کریں گے مجھے قبول ہو گا۔ اسی دوران جب جی سی کالج کی لسٹ لگی تو میرا نام ٹاپ آف دی لسٹ تھا۔ اور یوں میں نے جی سی کالج میں داخلہ لے لیا۔ میں 4 برس جی سی تک کالج کی باڈی بلڈنگ ٹیم کا کپتان رہا۔ اور مجھے رول آف آنر کا ایوارڈ ملا۔ ابھی مجھے جی سی کالج میں داخلہ ملے تین ماہ ہی گزرے تھے کہ انٹر کالجیٹ باڈی بلڈنگ چمپئن شپ آگئی جس میں گولڈ میڈل حاصل کر کے اپنے کالج کا نام روشن کیا۔ پھر میں مسٹر پنجاب کالج اور مسٹر کالجز کا چمپئن بنا۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی کا چمپئن بھی بنا۔
میں نے کالج میں فارسی کا مضمون رکھا تھا، جو جلد ہی چھوڑ کر اسلامک اسٹڈیز رکھ لیا۔ میں تین مرتبہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے کمرے میں گیا لیکن کمرہ بند ہونے کی وجہ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ تو میں کلاس میں آکر بیٹھ گیا جب حاضری لگائی گئی تو استاد نے پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے۔ انہوں نے مجھے کھڑا کر دیا اور پوچھنے لگے کہ یہاں کیوں بیٹھے ہو تو میں نے ان کو بتایا کہ میں نے فارسی کا مضمون چھوڑ دیا ہے اور اسلامک سٹڈی رکھ لی ہے تو انہوں نے کہا کہ کیا تم نے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سے سائن کروائے ہیں تو میں نے بتایا کہ سر میں تین مرتبہ ان کے پاس گیا لیکن کمرہ بند ملا تھا۔ اس لیے میں سائن نہ کروا سکا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ میں جب کبھی کلاس سے غائب ہوتا تو وہ کبھی راستے میں مل جاتے تو مجھے کان سے پکڑ کر کہتے کہ تم کسی دن مجھ سے جوتے کھائو گے۔ میں کہتا تھا کہ آپ استاد ہیں اور استاد کا درجہ والد کے برابر ہوتا ہے لہٰذا آپ مجھے جوتے مار لیں میں آگے سے اُف تک نہیں کروں گا۔ حالانکہ باڈی بلڈر ہونے کی وجہ سے کالج میں میرا بڑا رعب دب دبا ہوتا تھا۔ لیکن میں نے ہمیشہ اساتذہ کا ادب و احترام کیا۔ کالج کا دور بڑا گولڈن تھا۔ کالجوں میں جب لڑائی جھگڑے شروع ہوئے تو والدین نے کہا کہ بیٹا ہم تم کو پہلوان بنا رہے ہیں بدمعاش نہیں۔ ان دنوں باڈی بلڈرز اور پہلوانوں کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ ان پڑھ جاہل لوگوں کا کام ہے۔ پڑھے لکھوں کا نہیں۔ مجھ پر یہ لیبل لگا ہوا تھا۔ تو مجھے یاد ہے کہ والد صاحب نے مجھے سمجھایا تھا کہ بیٹا اگر تم لڑائی جھگڑے میں پڑو گے تو لوگ تمہیں بھی اَن پڑھ جاہل ہی کہیں گے۔ میں نے یہ بات ذہن میں بٹھا لی کہ مجھے لڑائی جھگڑوں میں پڑنے کے بجائے مثبت سر گرمیوں کو فروغ دینا ہے۔
1984ء میں گوجرانوالہ میں مسٹر پاکستان کے انتخاب کیلئے ہونے والے مقابلے میں شرکت کی۔ ارشد ملک مسٹر پاکستان بنے اور میں رنر اپ رہا تھا۔ اسی برس سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں مسٹر ایشیاء کا مقابلہ ہوا۔ اس میں شرکت کرنے والی پاکستان باڈی بلڈنگ ٹیم جن کھلاڑیوں پر مشتمل تھی ان میں اسد ملک، شوکت، امیر افضل خان، ڈاکٹر جاوید، قیصر پرویز اور میں جونیئر پلیئرز میں شامل تھا۔ پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن کے سیکریٹری اسماعیل بھٹی صاحب ٹیم کے منیجر اور کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ناصر صاحب کوچ تھے۔ قیصر پرویز نے برائونز میڈل حاصل کیا تھا جبکہ میں اپنی کلاس میں ساتویں نمبر پر رہا۔ شوکت صاحب چھٹے نمبر پر تھے۔ 1984ء میں انڈونیشیا میں مسٹر جونیئر ایشیا کا مقابلہ تھا۔ اس میں 32 ممالک کے تن سازوں نے حصہ لیا تھا۔ پاکستان ٹیم میں میرے ساتھ افتخار گیا تھا، میں نے ویلٹر ویٹ 75 کلو گرام کی کلاس میں پاکستان کیلئے گولڈ میڈل حاصل کر کے جونیئر مسٹر ایشیاء کا ٹائٹل جیتا تھا۔ میں اس وقت بہت زیادہ خوش تھا کیونکہ میرے کوچ اعظم باجوہ صاحب کی کوچنگ اور میری سخت محنت رنگ لے آئی تھی۔ 1985ء میں کوئٹہ میں مسٹر پاکستان ٹائٹل کیلئے مقابلہ ہوا تو میں نے پنجاب کی نمائندگی کرتے ہوئے مسٹر پاکستان کا ٹائٹل جیتا۔ اس مقابلے میں 60 لڑکے شریک تھے اور طارق منظور مسٹر پاکستان کیلئے فیورٹ تھے۔ میں جب پہلی مرتبہ مسٹر پاکستان بنا تو میرے استاد اعظم باجوہ صاحب نے شاباش دینے کے بجائے الٹا مجھے ڈانٹا شروع کر دیا کہ تم کو 84ء میں مسٹر پاکستان کا ٹائٹل جیتنا چاہیے تھا یہ سننے کے بعد آنسوئوں سے رونے لگا کیونکہ میں نے سخت محنت سے مسٹر پاکستان کا ٹائٹل جیتا تھا۔ (جاری ہے)