قسط نمبر105
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
سچن بھنڈاری کو ہوٹل پہنچاکر میں نے رضاکارانہ چھید والے ٹائر اور ٹیوب کی مرمت کروانے کی ذمہ داری بھی قبول کرلی اور اسے ہوٹل میں جاکر آرام کرنے کو کہا۔ اس نے غالباً میری خدمت کو بطور گُرو اپنا استحقاق گردانا اور شکریہ ادا کیے بغیر مسکراتا ہوا زینہ چڑھتاچلا گیا۔ میں نے اپنی گُرو پر اپنی مستعدی کا سکّہ جمانے کے لیے چھید والے ٹائر ٹیوب کے ساتھ ساتھ اسٹپنی ٹائر کی بھی مرمت کروادی۔ جب اسے بلواکر میں نے اس اضافی خدمت کا بتایا تو وہ بہت خوش ہوا اور مجھے شاباش دی۔
میں نے اس کے اچھے موڈ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ’’تو باس پھر آج رات سے ہی کلاس شروع۔ تم بینگلو پر پینے کے ساتھ میرے کو لیسن (سبق) بھی دیتے رہنا؟‘‘۔
اس نے زور سے گردن ہلائی ’’نہیں بے، یہ تو سوچنا بھی مت۔ آج تو فریڈم نائٹ ہے۔ مجھے سیلیبریٹ کرنا ہے۔ اور ہاں، ایک نمبر والی جونی واکر لانا ہے، ورنہ مزا خراب ہوجائے گا‘‘۔
میں نے اسے یقین دلایا کہ مجھے پیسے کی پروا نہیں ہے اور اسے گُرو دکشنا میں اصلی شراب ہی مہیا کروں گا۔
اسے گاڑی میں بیٹھا چھوڑ کر میں آٹو رکشا کرائے پر دینے کا دھندا کرنے والے اکبر باوا کے ٹھکانے کی طرف چل پڑا۔ میرا ذہن تیزی سے سچن بھنڈاری کی باتوں پر غور کر رہا تھا۔ مجھے لگا کہ قسمت مجھ پر مہربانی لٹاتے ہوئے چند ہی دن میں وہ موقع مہیا کرنے والی ہے، جس کی میں کئی ہفتوں، بلکہ مہینوں کی جدوجہد کے بعد توقع کر رہا تھا۔
اکبر باوا خالص کاروباری آدمی تھا اور اس نے اسلم کے ساتھ میری آمد کے موقع پر مجھے کوئی خاص گھاس نہیں ڈالی تھی۔ لیکن شاید لین دین کے معاملے میں میرا کھرا پن پرکھنے کے بعد اب وہ مجھ پر خاصا مہربان ہوگیا تھا۔ اس نے ٹیکسی کی چابی میرے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’لو یونس بابو، ایک دم فٹ فاٹ گاڑی ہے…۔ انجن میں بڑا دم ہے۔ کسی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ کاغذ بھی پورے ہیں‘‘۔
’’شکریہ باوا، تم نے کہہ دیا تو فکر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!‘‘۔ میں نے عاجزی سے کہا۔ میری بات سن کر وہ خوش ہوگیا۔ ’’شاباش! بمبئی محنت کرنے والوں کے لیے سونے کی کان ہے میاں۔ دل لگاکر دن میں بارہ چودہ گھنٹے ٹیکسی چلاؤ تو اگلے سال تک اس کے مالک بن سکتے ہو‘‘۔
میں نے اسے یقین دلایا کہ ایسا ہی ہوگا۔ اس موقع پر میں نے بومبے کے علاقوں کے بارے میں اپنی محدود واقفیت کا اعتراف کیا تو اس نے حوصلہ دیا کہ خود اس شہر کے باسی بھی تمام علاقوں سے واقف نہیں ہیں۔ میں رہنمائی کی ذمہ داری بلا تکلف سواری پر ڈال دیا کروں۔
میں ٹیکسی لے کر وہاں سے روانہ ہوا توکچھ ہی دیر میں اندازہ ہوگیا کہ اکبر باوا نے ٹیکسی اور اس کے انجن کے بارے میں غلط نہیں بتایا تھا۔ ہموار سڑک پر تو یوں لگتا تھا جیسے گاڑی ہوا میں تیر رہی ہو۔ اس کے مشورے کے عین مطابق میں نے پہلی سواری کے ہاتھ دیتے ہی اسے ٹیکسی میں بٹھالیا۔ اسے ماہم جانا تھا۔ جہاں کا راستہ مجھے بخوبی معلوم تھا۔ لگ بھگ فوراً ہی وہاں سے مجھے باندرا کی سواریاں مل گئیں۔ شام تک میں بہت اچھی کمائی کر چکا تھا۔ میں نے اکبر باوا سے وعدہ نہیں کیا تھا، اس کے باوجود میں نے کچھ رقم اس کے پاس پہنچائی اور سیدھا نیوی نگر کی طرف چل پڑا۔
میں نے ٹیکسی سچن کے کوارٹر سے کچھ فاصلے پر واقع باغیچے کے پاس کھڑی کی اور اس کے انجن کا معائنہ کرنے لگا۔ میرے اندازے کے عین مطابق کچھ ہی دیر میں کوارٹر کا گیٹ کھلا اور سچن کی گاڑی برآمد ہوئی، جس کی فرنٹ سیٹ پر آرتی موجود تھی۔ اس نے گاڑی روک کر گیٹ باہر سے بند کیا اور باہر سے تالا لگا دیا۔ چند ہی لمحوں بعد میری ٹیکسی اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ مجھے ان کی منزل کا پتا تھا۔ اس کے باوجود میں کسی اضافی معلومات کی امید میں تعاقب کرتا رہا۔
چھتر پتی شیواجی اسٹیشن پہنچ کر سچن نے گاڑی پارکنگ میں گھمادی۔ جبکہ میں نے مسافروں کی منتظر ٹیکسیوںکی قطار میں لگنے کے بجائے قدرے ہٹ کر اپنی گاڑی کھڑی کردی اور بونٹ کھول کر انجن ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ سچن نے واپسی میں خاصی دیر لگا دی ۔ اس کی گاڑی کے روڈ پر آتے ہی میں نے ایک بار پھر اس کا تعاقب شروع کر دیا۔
میری توقع کے برعکس وہ سیدھا اپنے کوارٹر واپس گیا۔ میں اسے وہاں چھوڑ کر کولابا مارکیٹ کی طرف چل دیا۔ میں نے شراب کے اسی اسٹور کا رخ کیا، جہاں سے سچن
بھنڈاری کو خریداری کرتے دیکھا تھا۔ جونی واکر کی بلیک لیبل وسکی کی بڑی بوتل کی قیمت میرے اندازے سے زیادہ نکلی۔ لیکن سچن جیسی موٹی مچھلی کو پھنسانے کے لیے یہ چارہ قطعاً مہنگا نہیں تھا۔ میں نے وہ بوتل ٹیکسی کی ڈگی میں ایک کونے میں احتیاط سے رکھ دی۔
لگ بھگ ساڑھے نو بجے کے قریب میں نے ایلفنسٹون ہوٹل کا رخ کیا۔ مجھے آس پاس کہیں سچن کی گاڑی دکھائی نہیں دی۔ آئندہ بیس پچیس منٹ میں مجھے کئی سواریوں سے گاڑی ٹھیک نہ ہونے کا عذر کر کے معذرت کرنا پڑی۔ بالآخر سچن کی گاڑی خراماں خراماں ایلفنسٹون ہوٹل کی طرف بڑھتی نظر آئی۔ اس نے پہلے والی جگہ درخت کے نیچے گاڑی کھڑی کی اور زینہ چڑھ کر ہوٹل میں چلا گیا۔ دس منٹ کے قریب مزید انتظارکر کے میں بھی ہوٹل کی طرف بڑھا۔ ہوٹل کا دربان وہی تھا، جسے میں اس رات دیکھ چکا تھا۔ میرا حلیہ اس وقت خاصا معززانہ تھا۔ میں زینہ چڑھنے کے بجائے دربان کے پاس رک گیا تواس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ (جاری ہے)