امام اصمعی ؒ فرماتے ہیں: ’’ عبدالملک بن مروان کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جو باغیوں کے ساتھ ملا ہوا تھا۔‘‘
عبدالملک نے کہا: ’’ اس کی گردن اڑا دو۔‘‘
اس آدمی نے کہا: ’’اے مسلمانوں کے امیر! مجھے آپ سے اس بدلے کی امید نہیں۔‘‘
عبدالملک نے کہا: ’’ تو اور کیا بدلہ ہونا چاہئے؟‘‘
کہنے لگا: ’’میں تو اس باغی کے ساتھ صرف آپ کی محبت میں نکل کھڑا ہوا تھا، کیوں کہ میں ایک منحوس آدمی ہوں، جب بھی میں کسی کا ساتھ دیتا ہوں تو وہ ہار جاتا ہے اور آپ کو میرے دعویٰ کی درستگی کا اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا۔ میں اکیلا آپ کے لئے ان ایک لاکھ سے بہتر ہوں، جو آپ کے ساتھ ہیں، تو عبد الملک نے ہنس کر اسے آزاد کر دیا۔
ابوالحسن بن ہلال کہتے ہیں : ’’ حجاج بن یوسف ایک دن اپنے لشکر سے تنہا نکل کر کھڑا ہوا۔ تو ایک باغبان کے پاس سے گزرا جو اپنی زمین کو سینچ رہا تھا۔‘‘
اس سے کہا: ’’ججاج کے ساتھ تمہاری کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
باغبان نے کہا: ’’خدا تعالیٰ اس پر لعنت کرے اور اس کو اپنی رحمت سے دور کرے وہ ہلاک کرنے والا اور کینہ پرور ہے، خدا تعالیٰ اس سے انتقام لے۔‘‘
حجاج نے اس سے کہا: ’’کیا تم مجھے پہنچانتے ہو؟‘‘
اس آدمی نے کہا: ’’نہیں۔‘‘
حجاج نے کہا: ’’میں ہی حجاج ہوں۔‘‘ تو اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، چنانچہ اس نے اپنے ساتھ موجود لاٹھی اٹھائی اور کہا: ’’آپ مجھے جانتے ہیں؟‘‘
حجاج نے کہا: ’’نہیں‘‘۔
کہنے لگا: ’’میں ابو ثور مجنون ہوں اور اس دن مجھے جنون کا دورہ پڑتا ہے۔ یہ کہہ کر غصے اور جوش سے جھاگ اڑانے لگا اور اپنے سر پر لاٹھی مارنے لگا تو حجاج اسے چھوڑ کر ہنستے ہوئے چل دیا۔‘‘ (راحت پانے والے، مصنف: شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض)