حصہ دوم
محترمہ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی خاطر میں نے سب سے پہلے قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھنا شروع کیا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ کتاب دل کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی اپیل کرتی ہے۔ عیسائیت پر غور و فکر کے دوران اور بائبل کے مطالعے کے نتیجے میں ذہن میں کتنے ہی سوال پیدا ہوتے تھے، مگر کسی پادری یا دانشور کے پاس ان کا کوئی جواب نہ تھا اور یہی تشنگی روح کے لیے مستقل روگ بن گئی تھی، مگر قرآن پڑھا تو ان سارے سوالوں کے ایسے جواب مل گئے، جو عقل اور شعور کے عین مطابق تھے۔
مزید اطمینان کے لیے اپنے کلاس فیلو مسلمان نوجوانوں سے گفتگوئیں کیں۔ تاریخ ِ اسلام کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ میں اب تک اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں میرا نقطہ نظر صریحاً بے انصافی اور جہالت پر مبنی تھا۔
مزید اطمینان کی خاطر میں نے پیغمبر ِ اسلامؐ اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کیا تو یہ دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ امریکی مصنفین کے پروپیگنڈے کے بالکل برعکس رسول اکرمؐ بنی نوع انسان کے عظیم محسن اور سچے خیر خواہ ہیں، خصوصاً انہوں نے عورت کو جو مقام و مرتبہ عطا فرمایا، اس کی پہلے یا بعد میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماحول کی مجبوریوں کی بات دوسری ہے، ورنہ میں طبعاً بہت شرمیلی ہوں اور خاوند کے سوا کسی مرد سے بے تکلفی پسند نہیں کرتی۔
چنانچہ جب میں نے پڑھا کہ پیغمبر اسلامؐ خود بھی بے حد حیا دار تھے اور خصوصاً عورتوں کے لیے عفت و پاکیزگی اور حیا کی تاکید کرتے ہیں تو میں بہت متاثر ہوئی اور اسے عورت کی ضرورت اور نفسیات کے عین مطابق پایا۔ پھر رسول اقدسؐ نے عورت کا مقام جس درجہ بلند فرمایا، اس کا اندازہ اس قول سے ہوا کہ ’’جنت ماں کے قدموں میں ہے‘‘ اور آپؐ کے اس فرمان پر تو میں جھوم اٹھی کہ ’’عورت نازک آبگینوں کی طرح ہے‘‘ اور ’’تم میں سے سب سے اچھا شخص وہ ہے، جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے۔‘‘
قرآن اور پیغمبر اسلامؐ کی تعلیمات سے میں مطمئن ہو گئی اور تاریخ اسلام کے مطالعے اور اپنے مسلمان کلاس فیلو نوجوانوں کے کردار نے مسلمانوں کے بارے میں میری ساری غلط فہمیوں کو دور کر دیا اور میرے ضمیر کو میرے سارے سوالوں کے جواب مل گئے۔ تو میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس کا ذکر میں نے متذکرہ طالب علموں سے کیا، تو وہ چند روز بعد میرے پاس چار ذمے دار مسلمانوں کو لے آئے۔ ان میں سے ایک ڈینور (Denever) کی مسجد کے امام تھے۔ چنانچہ میں نے ان سے چند مزید سوالات کیے اور کلمہ شہادت پڑھ کر دائرئہ اسلام میں داخل ہوگئی۔
میرے قبول اسلام پر پورے خاندان پر گویا بجلی گر پڑی۔ ہمارے میاں بیوی کے تعلقات واقعی مثالی تھے اور میرا شوہر مجھ سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا، مگر میرے قبول اسلام کا سن کر اسے غیر معمولی صدمہ ہوا۔ میں اسے پہلے بھی قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی اور اب پھر سمجھانے کی بہت سعی کی، مگر اس کا غصہ کسی طرح ٹھنڈا نہ ہوا، اور اس نے مجھ سے علیحدگی اختیار کر لی اور میرے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ عارضی طور پر دونوں بچوں کی پرورش میری ذمہ داری قرار پائی۔ (جاری ہے)