ذکرالٰہی روح کی غذا ہے

روح کا تعلق چونکہ عالم بالا سے ہے، اس لئے اس کی خوراک ذکر الٰہی ہے اور اسی طرح روح کی تندرستی اور صحت یہ ہے کہ ذکر الٰہی کے لئے بھوک لگے تو ذکر کیا جائے اور تلاوت قرآن پاک کی جائے، تاکہ سکون و سرور نصیب ہو، جیسے جسم کو بار بار کھانے کی ضرورت اور شوق پیدا ہوتا ہے۔ جب پہلا کھانا ہضم ہو جائے تو پھر بھوک لگے گی تو کھانا کھاتے ہیں، تاکہ جسم کا نظام قائم دائم رہے۔ اسی طرح صحت روحانی بحال ہو تو بار بار ذکر الٰہی کرنے کا شوق و ذوق پیدا ہوتا ہے اور ہر دو تین گھنٹے بعد یاد الٰہی کی جاتی ہے، یعنی نماز ادا کی جاتی ہے، یہ روح کی خوراک ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے انسان میں قوتیں رکھی ہیں۔ ایک بہیمیت یعنی حیوانی قوت اور دوسری ملکیت یعنی روحانی قوت۔ آپ فرماتے ہیں کہ عام انسان صاحب اصلاح ہوتے ہیں۔ ان کی حیوانیت اور ملکیت قوتوں میں صلح ہوتی ہے۔ جسم کو کھانے کا وقت آئے تو ملکیت یعنی روحانی قوت آڑے نہیں آتی اور روحانی قوت کی یاد الٰہی کا وقت آئے تو جسم آڑے نہیں آتا۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ کامل انسان وہ ہے جو دونوں کی ضروریات کا خیال رکھے اور ایک طرف میں نہ جھک جائے۔ اگر ایک طرف جھک جائے تو ایسے ہوگا جیسے فالج زدہ آدمی، جس کا ایک حصہ مارا جائے، البتہ دونوں میں اہمیت روح کو ہی حاصل ہے۔
اس لئے جسم کی صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، لیکن اس سے زیادہ روح کی صحت کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے۔ سخت سردی کے دنوں میں جسم نہیں چاہتا کہ باہر نکلے، وضو کرے اور مسجد میں جائے، لیکن چونکہ روح کی دعوت آچکی ہے۔ حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح، اس لئے وہ کہتی ہے کہ میں ضرور جاؤں گی۔ تب جسمانی آرام کو اور نرم و گرم بستر کو نظر انداز کرکے مسجد میں جاتے ہیں۔ اگر روحانی اور حیوانی قوت میں صلح ہو تو اول تو تعارض و جھگڑا ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن تعارض ہو بھی جائے تو ترجیح روح کو دی جائے گی، کیونکہ یہ جسم سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ کیونکہ جسم تو خاک میں مل جائے گا اور روح باقی رہے گی۔
حضرت شیخ النفسیر مولانا احمد علیؒ فرماتے ہیں کہ لوگوں پر ضروریات جسمانی کا کلو روفارم یعنی بے ہوشی اتنی چھائی ہوئی کہ مدہوش ہیں اور اس مدہوشی میں روح کی صحت کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔ خدا کے خاص بندے اس مدہوشی کو دور کرتے ہیں اور جب لوگ مدہوشی سے بیدار ہوتے ہیں، تب انہیں سمجھ آتی ہے کہ جب تک تعلیم الٰہی اور سنت نبویؐ کا نورنہ ملے، بیداری پیدا نہیں ہوتی۔ آنکھ کھلے گی، جب قبر میں جائیں گے۔ (ازحضرت مولانا احمد علیؒ)

Comments (0)
Add Comment