معارف و مسائل
الَّذِیْ تَوَلّیٰ… تولی کے لفظی معنی منہ پھیر لینے کے ہیں، مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت سے منہ پھیرے۔
وَ اَکْدیٰ… کُدیَہ سے مشتق ہے، کدیہ اس سخت پتھر کو کہا جاتا ہے جو کوئی کنواں یا بنیاد کھودتے ہوئے زمین میں نکل آوے اور کھدائی کے لئے رکاوٹ بن جاوے، اس لئے اکدی کے معنی یہ ہوئے کہ پہلے کچھ دیا، پھر دینے سے رک گیا، آیت کے شان نزول میں جو ایک واقعہ اوپر بیان ہو چکا ہے، اس کے مطابق تو معنی ظاہر ہیں اور اس سے قطع نظر کی جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ شخص جس نے خدا کی راہ میں کچھ خرچ کیا پھر چھوڑ دیا، یا شروع میں کچھ حق تعالیٰ کی اطاعت کی طرف مائل ہوا، کچھ کرنے لگا پھر چھوڑ بیٹھا، اس لفظ کی یہ تفسیر حضرت مجاہدؒ، سعید بن جبیرؒ، قتادہؒ وغیرہ سے منقول ہے۔ (ابن کثیر)
اَعِنْدَہ عِلْمٌ… شان نزول میں جو قصہ بیان ہوا ہے، اس کے مطابق تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اسلام کو اس لئے چھوڑ دیا کہ اس کے کسی ساتھی نے اس سے کہہ دیا تھا کہ آخرت کا تیرا عذاب میں اپنے سر لے کر تجھ کو بچا دوں گا، اس احمق نے اس کا یقین کیسے کرلیا، کیا اس کو علم غیب حاصل ہے؟ جس سے وہ دیکھ رہا ہے کہ بے شک کفر کی صورت میں وہ جس عذاب کا مستحق ہوگا، وہ عذاب یہ ساتھی اپنے سر لے لے گا اور مجھے بچا دے گا، جو ظاہر ہے کہ سراسر دھوکہ ہے، نہ اس کو علم غیب ہے، نہ کوئی دوسرا آدمی کسی کا عذاب آخرت اپنے سر لے کر اس کو بچا سکتا ہے اور اگر اس قصہ سے قطع نظر کی جائے تو معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ وہ شخص جو خدا کی راہ میں خرچ کرتا کرتا رک گیا ہے اور خرچ کرنا چھوڑ دیا ہے تو اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اس کو یہ خیال ہوا ہوگا کہ موجودہ مال خرچ کر دوں گا تو پھر کہاں سے آئے گا، اس خیال کی تردید میں فرمایا کہ کیا اس کو غیب کا علم ہے، جس کے ذریعے گویا وہ یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ مال ختم ہو جائے گا اور اس کے بجائے اور مال اس کو نہ مل سکے گا، یہ غلط ہے، کیونکہ نہ اس کو غیب کا علم ہے اور نہ یہ بات صحیح ہے، کیونکہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: تم جو کچھ خرچ کرتے ہو، خدا تعالیٰ اس کا بدل تمہیں دیدیتے ہیں اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والے ہیں۔ انسان غور کرے تو قرآن کا یہ ارشاد صرف مال اور پیسہ کے معاملے میں نہیں، بلکہ ہر قوت و توانائی جو وہ دنیا میں خرچ کرتا ہے حق تعالیٰ اس کے بدن میں اس کا بدل ما یتحلل پیدا کرتے رہتے ہیں ، ورنہ انسان کے بدن کا ایک ایک عضو اگر فولاد کا بھی بنا ہوتا تو ساٹھ ستر سال کام لینے سے کبھی کا گھس گھسا کر برابر ہو جاتا، جس طرح حق تعالیٰ انسان کے تمام اعضاء میں جو کچھ محنت سے تحلیل ہو جاتا ہے خود کار مشین کی طرح اس کا بدل اندر سے پیدا کر دیتے ہیں، اسی طرح مال کا بھی معاملہ یہی ہے کہ انسان خرچ کرتا رہتا ہے اس کا بدل آتا رہتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ رسول اقدسؐ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا: بلال! خدا کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور عرش والے (حق تعالیٰ) کی طرف سے اس کا خطرہ نہ رکھو کہ وہ تمہیں مفلس کر دے گا۔‘‘ (ابن کثیر) (جاری ہے)