یہجون 1999ء کا واقعہ ہے۔ برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں لڑکیوں کے ایک اہم اسکول کے ایک ہال میں تقریری مقابلہ ہو رہا تھا۔ موضوع تھا ’’مشہور مذہبی شخصیت‘‘ اس موضوع پر ایک مسلمان بچی نے حضور اقدسؐ کی شخصیت کو اپنی تقریر کا موضوع بنایا۔ اپنی تقریر کے دوران یہ بچی جب بھی لفظ محمدؐ ادا کرتی تو غیر ارادی طور پر ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ نہ کہتی۔
ہال میں بیٹھی ایک دوسری مسلمان بچی کو اس کی یہ حرکت انتہائی ناگوار گزری۔ اس غیر ارادی لغزش کو اس بچی نے ایک دفعہ برداشت کیا، مگر اس کے بعد اس سے نہ رہا گیا۔ پھر اچانک جذبہ ایمانی کے ساتھ اپنی نشست سے فوراً اٹھی اور بڑے جذبے اور زوردار الفاظ میں بے اختیار پکارا اٹھی: صلی اللہ علیہ وسلم، صلی اللہ علیہ وسلم، صلی اللہ علیہ وسلم۔
مطلب یہ ہے کہ دوسری مقرر بچی کو یاد دلا رہی تھی کہ محمدؐ کے اسم گرامی کے ساتھ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ بھی کہو (یہ بھی ایک درود شریف ہے)
پورے ہال میں ایک سناٹا چھا گیا۔ کیونکہ اسکول کی تاریخ میں پہلی بار کسی نے نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی تھی (یہود و نصاریٰ کے نزدیک) اس بچی کو فوراً ہال سے باہر نکال دیا گیا۔
یہودی و عیسائی اساتذہ اور ماہرین نفسیات پر مشتمل بورڈ نے بچی سے متعدد سوالات کئے اور اس سے بے ساختہ اس حرکت کے بارے میں پوچھا۔ بچی نے ہچکیوں اور سسکیوں میں ایمان افروز اور واقعی ایمان کو تازہ اور روشن کرنے والا جواب دیا کہ جب کوئی شخص ہمارے پیارے آقا مدنی حضرت محمد رسول اللہؐ کا نام نامی اسم گرامی زبان پر لاتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ بھی ادا کرے۔
میں بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے اس پر کوئی Compromise (کمپرو مائز) نہیں کرسکتی۔ حضور اقدسؐ کا اسم گرامی سن کر صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کہنا میرا ایمان اور دینی استحقاق اور فریضہ ہے۔ اس فریضہ اور استحقاق کی ادائیگی سے مجھے Discipline (ڈسپلن) کے نام پر روکا نہیں جا سکتا۔ (ماخوذ از خواتین کا اسلام 5 اپریل 2006ء بروز بدھ ص 6 تا 7)
شکر گزار بندے کی حکایت:
حضرت عیسیٰؑ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کا جسم قطعی طور پر مفلوج ہو چکا ہے اور آنکھیں بھی جاتی رہی ہیں۔ لیکن شکر خدا میں مشغول ہے، کہ اے اللہ تو نے مجھے بہت نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔
آپؑ نے دریافت فرمایا کہ تمہیں کون سی نعمت ملی ہے؟
اس نے کہا کہ معرفت الٰہی یعنی اللہ جل شانہ، کی پہچان جو ہزاروں کو نصیب نہ ہو سکی۔
یہ بات سن کر حضرت عیسیٰؑ اس کے پاس بیٹھ گئے اور اپنا دست مبارک اس کے بیمار اور مفلوج جسم پر پھیرا۔ اس کی برکت سے وہ بالکل تندرست ہوگیا۔ یہ سیدنا عیسیٰؑ کا معجزہ تھا اور اس کے بعد وہ ہمیشہ آپؑ کے ساتھ رہنے لگا۔
(کیمیائے سعادت ص 761)