زائد فیسوں کی واپسی کیلئے حکمت عملی نہیں بنائی جاسکی

عظمت علی رحمانی
نجی اسکولوں سے وصول کردہ زائد فیسوں کو واپس کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی جا سکی۔ عدالتی احکامات کے مطابق نجی اسکول تین ماہ کے اندر زائد لی گئی فیسیں طلبہ کی آئندہ فیسوں سے کٹوتی کی صورت میں ادا کریں گے۔ دوسری جانب عدالت کے اس حکم کی تعمیل کرنے کیلئے ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن کوئی پالیسی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ عدالتی احکامات کے مطابق پرائیویٹ اسکول سال میں ایک بار صرف ٹیوشن فیس میں اضافہ کر سکیں گے۔ خلاف ورزی کرنے والے ادارے کی رجسٹریشن اور بورڈز سے الحاق ختم کردیا جائے گا۔
واضح رہے کہ عدالت کی جانب سے سات مختلف آئینی درخواستوں کی سماعت کے بعد تین ستمبر کو یہ فیصلہ سنایا گیا۔ والدین کی جانب سے نجی اسکولوں کے خلاف سب سے پہلی آئینی درخواست بشریٰ جبین نامی خاتون نے بحوالہ D-6274 دائرکی تھی، جس کے ساتھ ارشد فواد نے درخواست بحوالہ D-6376، فراز حسین میمن نے درخواست D-6822، محمد عامر قاضی نے درخواست D-69 77، ثاقب فاروق نے درخواست D-6978، کاشف جمال نے درخواست D-7043 اور خالد فیاض نے درخواست بحوالہ D-7570 دائر کی تھیں۔ جن پر سندھ ہائی کورٹ کے تین رکنی بینج جسٹس عقیل احمدعباسی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مس اشرف جہاں نے 51 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔
سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق کوئی بھی اسکول متعلقہ مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر اکیڈمک سال میں ایک ہی بار فیس بڑھا سکے گا۔ آخری بار فیس میں اضافے کے ایک سال بعد ایک بار 5 فیصد فیس میں اضافہ کیا جا سکے گا۔ اس کیلئے متعلقہ و مجاز اتھارٹی کا اجازت نامہ اور وجہ بتائی جائے گی۔ اس زائد فیس کا اطلاق صرف ٹیوشن فیس پر ہوگا۔ جبکہ باقی داخلہ فیسوں سمیت دیگر مد میں لی جانے والی فیسوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ فیصلے میں ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن کی انتظامیہ کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی نئے اسکول کی رجسٹریشن جاری کرتے وقت مالکان کی تعلیمی قابلیت کو ضرور مد نظر رکھیں اور جو اسکول ابھی چل رہے ہیں، ان اسکولوں کی رجسٹریشن کی تجدید کے وقت ان کے قواعد و ضوابط کو ضرور چیک کیا جائے۔ عدالتی فیصلے کے صفحہ 45 کے مطابق اسکولوں کی انتظامیہ نصاب کے بارے میں بھی متعلقہ اتھارٹی کو آگاہ کرے گی۔ کسی بھی اسکول کا مالک محض پیشے کے طور پر اسکول نہیں چلائے گا۔ 5 فیصد فیس میں اضافہ کرنے سے پہلے اس بات کو بھی دیکھا جائے گا کہ آیا اسکول کی انتظامیہ نے اسکول میں اس حوالے سے کچھ اضافی سہولیات بھی دی ہیں یا صرف فیس میں ہی اضافہ کرنا چاہ رہی ہے۔ جن اسکولوں نے متعلقہ مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر فیس بڑھائی ہے، ان کو تین ماہ کی مہلت دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ طلبا و طالبات سے آئندہ جو فیس لیں گے، ان میں نمایاں کمی کی جائے گی کیونکہ جو زائد فیس لی جاچکی ہے وہ کٹوتی کی جائے گی۔
حیرت انگیز طور پر ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹیٹیوشن، رجسٹریشن اینڈ انسپکشن کے افسران کی جانب سے آج تک شہر میں سر عام چلنے والے ایسے اسکولوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی ہے جو 120سے 200 گز کے مکانات میں قائم ہیں۔ جبکہ ایسے بھی کسی پرائیویٹ اسکول کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی جہاں طلبہ کیلئے لائبریری، لیبارٹری، پریڈ و پی ٹی گراؤنڈ کی سہولیات موجود نہیں۔ ڈائریکٹوریٹ افسران کی جانب سے کسی بھی اسکول کا سالانہ انسپکشن نہیں کیا جاتا، جبکہ اسکولوں کی تجدید کیلئے آنے والی فائلوں پر نذرانے وصول کرنے کے بعد انہیں تجدیدی سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔ غیر قانونی اور خلاف ضابطہ چلنے والے اسکولوں میں سے کسی بھی اسکول کے خلاف کارروائی کرنے سے ادارہ گریزاں ہے۔ اس سلسلے میں چیئرمین آل سندھ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن حیدر علی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولز کے رولز 20 سال پرانے ہیں۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ پرائیویٹ اسکولز کے رولز کے مطابق ہے۔ 5 فیصد اضافے سے کم فیس والے اسکول زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔ دو سال پہلے سیکریٹری تعلیم نے پرائیویٹ اسکولز کے رولز پر نظر ثانی کرائی تھی۔ لیکن تاحال پرائیویٹ اسکولز کے نظر ثانی شدہ رولز کو قانونی شکل نہیں دی جا سکی ہے۔ محکمہ تعلیم سے دو سال قبل باہمی رضامندی کے ساتھ 10 فیصد تک اضافے کا معاملہ طے پایا تھا۔ محکمہ تعلیم گذشتہ دو سال سے طے شدہ معاملات کو قانونی شکل نہیں دے سکا ہے‘‘۔
ادھر ڈائریکٹرجنرل پرائیویٹ انسٹیٹیوشن سندھ ڈاکٹر منسوب حسین صدیقی نے نجی تعلیمی اداروں کو مراسلہ جاری کیا ہے کہ کوئی بھی نجی تعلیمی ادارہ 5 فیصد سے زائد فیس میں اضافہ وصول نہ کرے۔ رولز 7-(3) کے تحت پیشگی اجازت حاصل کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈی جی پرائیویٹ انسٹیٹیوشن نے تمام نجی تعلیمی اداروں کو آئندہ سیشن 2019ء اور 2020ء میں فیس میں اضافے کیلئے ایک شیڈول جاری کیا ہے، جس کے مطابق فیس میں اضافے کیلئے نجی تعلیمی ادارے اپنی درخواست ڈائریکٹوریٹ میں جمع کرائیں گے۔ شیڈول کے مطابق نرسری تا دہم جماعتوں کیلئے یکم جنوری سے 28 فروری 2019ء تک اور اے اینڈ او لیول کیلئے یکم مارچ 2019ء تا 30 اپریل 2019ء درخواستیں جمع کرائیں گے۔ جماعت نرسری تا دہم والے اسکولز کی فیس میں اضافے کے احکامات 25 مارچ 2019ء تک جاری کردیئے جائیں گے۔ جبکہ O & A لیول اسکولز کی فیس میں اضافے کے احکامات25 مئی 2019ء تک جاری کردئیے جائیں گے۔ اگر کسی اسکول کی درخواست مسترد کی جائے گی، تو اسے بھی تحریری طور پر آگاہ کردیا جائے گا۔ دیئے گئے شیڈول کے بعد کوئی بھی درخواست قابلِ قبول نہ ہوگی۔ ڈی جی پرائیویٹ اسکول کا کہنا ہے کہ جسٹس عقیل عباسی کی عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ سندھ پرائیویٹ انسٹیٹیوشن (ریگولیشن اینڈ کنٹرول) رولز2005کی شق 7-(3) برقرارہے اور یہ نافذالعمل رہے گی۔ خلاف ورزی کرنے والے نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن فوری منسوخ کردی جائے گی اورمتعلقہ امتحانی بورڈزکو بھی مطلع کردیا جائے گا کہ ایسے اداروں کو امتحان میں شریک نہ کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ اس فیصلے میں جون، جولائی کی فیس لینے یا نہ لینے کے حوالے سے کوئی بھی حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اس کیس میں شامل ساتوں درخواست گزاروں کی جانب سے جون، جولائی کی فیسوں کے حوالے سے کوئی بھی درخواست نہیں کی گئی تھی، جس کی وجہ سے اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ اس کیس میں شامل نہیں ہے۔ تاہم والدین کا کہنا ہے کہ وہ جون، جولائی کی فیسوں کے خاتمے کیلئے بھی عدالت جائیں گے تاکہ چھٹیوں کے دوران لی جانے والی فیسیوں سے بھی جان چھوٹ جائے۔

Comments (0)
Add Comment