بوگس تعلیمی اداروں کے ہزاروں طلبہ کا مستقبل دائو پر لگ گیا

مرزا عبدالقدوس
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے گزشتہ سات آٹھ برسوں میں جن ایک سو چون سے زائد تعلیمی اداروں کو جعلی اور بوگس قرار دیا، ان میں بعض یونیورسٹیز ہونے کے دعویدار بھی ہیں۔ بعض اداروں نے اپنے ساتھ دیگر کئی اداروں کو منسلک کرکے ان کی رجسٹریشن کر رکھی تھی۔ اس طرح غیر قانونی تعلیمی اداروں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، جن میں زیر تعلیم ہزاروں طلبہ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور ان کے والدین کے کروڑوں روپے تعلیم کے ان تاجروں کی تجوریوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کہنا ہے کہ طلبہ اور ان کے والدین کو کسی بھی ادارے کے بارے میں پہلے معلومات حاصل کرنی چاہئیں اور معلوم کرنا چاہئے کہ اس کی ہائر ایجوکیشن کمیشن میں باقاعدہ رجسٹریشن ہے یا نہیں؟ کمیشن ذرائع کے مطابق ان کا ادارہ وقتاً فوقتاً اشتہارات جاری کر کے اس سلسلے میں طلبا و طالبات اور ان کے والدین کو وارننگ بھی جاری کرتا ہے اور بعض ایسے تعلیمی اداروں کو بھی پریس ریلیز اور اشتہارات کی صورت میں بے نقاب کرتا ہے، جو بڑے بڑے اشتہارات دے کر اور مہم چلاکر طلبا و طالبات کو اپنی جانب راغب کرنے یعنی داخلہ لینے پر مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہائر ایجوکیشن کمیشن کے انتباہ کے باوجود ہر سال بڑی تعداد میں طلبہ ان دھوکہ بازوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے جن تعلیمی اداروں کو جعلی اور بوگس قرار دیا گیا ہے، ان میں سے بعض کی رجسٹریشن نہیں ہے، جبکہ بعض ادارے اور یونیورسٹیاں ایسے کورسز آفر کر رہی ہیں، جن کی ان کے اداروں میں فیکلٹی نہیں یا ان کی ایچ ای سی سے منظوری نہیں لی گئی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اس سلسلے میں قوانین خاصے سخت ہیں، جن کی پابندی کرائی جاتی ہے۔ اس لئے بعض ادارے جعل سازی کر کے چند فیکلٹیز کی منظوری حاصل کر کے مزید کئی پروگرام شروع کردیتے ہیں، جو سراسر غیر قانونی اور فراڈ ہے۔ جن اداروں کی ایچ ای سی نے اب تک رجسٹریشن منسوخ کی ہے، ان میں سے ایک سو دو کا تعلق پنجاب، چھتیس کا سندھ، گیارہ کا خیبرپختون اور بعض کا اسلام آباد اور آزاد کشمیر سے ہے۔ ایسے اداروں میں لیڈز یونیورسٹی لاہور اور اس سے منسلک ادارے۔ SOFT LOGIC کالج لاہور۔ پاکستان کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لاہور۔ ایمز (AIMS) سٹی آف مینجمنٹ سائنسز ملتان۔ نیشنل ٹیکسٹائل کالج لاہور۔ امریکن انٹرنیشنل کالج لاہور۔ راول اوپن انٹرنیشنل یونیورسٹی راولپنڈی۔ اسلامیہ کالج آف کامرس مظفر گڑھ۔ لیڈز لاء کالج بورے والا۔ کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی راولپنڈی۔ THE ELITES یونیورسٹی۔ ویسٹرن انٹرنیشنل یونیورسٹی۔ یونیورسٹی آف اکنامکس اینڈ ٹیکنالوجی۔ یونیورسٹی آف اسلامک اسٹڈیز۔ نیشنل ٹیکسٹائل کالج آف پروفیشنل اسٹڈیز لاہور۔ لاہور یونیورسٹی آف کمپیوٹر سائنسز۔ نیشنل گروپ آف ٹیکسٹائل کالجز۔ آریان یونیورسٹی۔ قلندر شہباز یونیورسٹی حیدرآباد۔ لال شہباز یونیورسٹی۔ یونیورسٹی آف لورالائی۔ مائی (MY) یونیورسٹی اسلام آباد۔ قراقرم یونیورسٹی اسلام آباد۔ ورچوئل یونیورسٹی۔ فیڈرل اردو یونیورسٹی۔ بحریہ یونیورسٹی۔ لنکن انسٹی ٹیوٹ کلفٹن کراچی۔ کالج آف ایجوکیشن کراچی۔ SPIRIT انسٹی ٹیوٹ کراچی۔ مہران انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی حیدرآباد۔ انٹرنیشنل یونیورسٹی آف امریکہ۔ الخیر یونیورسٹی اور اس سے منسلک تمام ادارے۔ لاہور اسکول آف انفارمیشن ٹیکنالوجی۔ گلوبل کالجز۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز (AIMS)۔ اسٹینڈرڈ انسٹی ٹیوٹ لاہور۔ نیشنل کالج فیصل آباد اور ان جیسے دیگر کئی ادارے اور انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن ماضی میں ایسے جعلی اور بوگس اداروں کے بارے میں میڈیا، اخبارات میں اشتہارات بھی جاری کر کے عوام، خاص طور پر طلبا و طالبات کو آگاہ کرتا رہا ہے کہ وہ اپنا قیمتی وقت اور فیسوں کی صورت میں بھاری سرمایہ ضائع نہ کریں اور کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے سے پہلے اس کے بارے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ویب سائٹ سے معلومات ضرور حاصل کریں۔
اعلیٰ تعلیم کے وفاقی وزیر سینیٹر شفقت محمود نے گزشتہ روز سینیٹ آف پاکستان میں بوگس تعلیمی اداروں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے طلبا کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ بالا اور ان جیسے دیگر ادارے جن پر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پابندی عائد کی ہے اور بوگس قرار دیا ہے، وہ ہر سمسٹر میں لاکھوں روپے طلبہ سے بٹور کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کے بعض مالکان نے بھاری معاوضے پر تعلیمی شعبے کے کچھ نمایاں افراد کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں اور ان کی وساطت سے اپنے ’’کاروبار‘‘ کو وسعت دیتے اور تحفظ حاصل کرتے ہیں۔ ایسے نمایاں افراد میں سرکاری تعلیمی اداروں کے سابق اعلیٰ عہدیدار اور ایچ ای سی سے ماضی یا حال میں کسی طور پر تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ یہی افراد ان تعلیمی اداروں کے خلاف کسی بڑی کارروائی میں رکاوٹ بنتے ہیں اور اس ادارے کو ایچ ای سی کا معیار اور قواعد پورا کئے بغیر رجسٹریشن کرانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment