امت رپورٹ
نقیب اللہ کے قاتل سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کو ریلیف ملتے ہی اس کی ٹیم کے ساتھ چلنے والے افراد نے ضلع ملیر کے مختلف علاقوں سہراب گوٹھ، گلشن معمار، احسن آباد، سبزی منڈی اور سائٹ سپر ہائی وے میں اپنی پرانی پوزیشنوں پر واپس آنا شروع کردیا ہے۔ جرگہ رہنمائوں اور علاقہ مکینوں کے بقول ان افراد کی واپسی کے ساتھ ہی ان علاقوں میں گزشتہ کئی ماہ سے رکی ہوئی وارداتیں بھی دوبارہ شروع ہوچکی ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران وہی پرانی وارداتیں ہو رہی ہیں، جو ایس ایس پی رائو انوار کی ٹیم میں شامل پولیس اہلکاروں کا خاصہ سمجھی جاتی تھیں۔ ان وارداتوں میں گھروں میں رات کے وقت مسلح افراد خود کو پولیس اہلکار ظاہر کرکے داخل ہوتے ہیں، درجن بھر مسلح افراد پر مشتمل یہ ٹولیاں آپریشن کے نام پر گھروں کے مکینوں کو باندھ کر گھروں کا صفایا کرکے فرار ہو جاتی ہیں۔ اس دوران مکینوں کو مختلف قسم کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں رائو انوار کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔ رائو انوار کی ٹیم میں شامل رہنے والے یہ پولیس اہلکار، تھانوں میں واپس آنے کے بعد رائو انوار کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور احتجاج میں شرکت کرنے والوں پر نظر رکھتے ہیں اور ان کے حوالے سے نوٹنگ کرتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب پختون گرینڈ جرگہ کے عمائدین کی جانب سے رائو انوار کے خلاف کیس خراب کرنے والے سندھ پولیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے لئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے قانونی امداد کیلئے جرگہ عمائدین کے ڈسپوزل پر دیئے گئے وکلا کے پینل کے ساتھ مشاورت شروع کر دی گئی ہے۔
ضلع ملیر کے علاقوں سہراب گوٹھ، گلشن معمار، سائٹ سپر ہائی وے، افغان بستی اور جنجال گوٹھ وغیرہ کی درجنوں آبادیوں میں خاص قسم کی لوٹ مار اور دھمکیوں کی وارداتوں کا سلسلہ شروع ہونے کی اطلاعات کے بعد علاقہ مکینوں اور جرگہ عمائدین سے خصوصی بات چیت کی گئی تاکہ اصل صورتحال معلوم کی جاسکے۔ اس ضمن میں گلشن معمار اور سائٹ سپر ہائی وے کے علاقے جنجال گوٹھ کے رہائشی اختر خان اور مختیارخان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ جب سے رائو انوار کو نقیب اللہ کیس میں رہائی ملی ہے، اس وقت سے صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ کیونکہ ماضی میں جس وقت رائو انوار خود کو ضلع ملیر کا بلا شرکت غیرے مختار سمجھتا تھا، اس وقت ضلع ملیر کے تمام تھانوں میں اس کے کچھ مخصوص ماتحت پولیس اہلکار مستقل تعینات رہتے تھے۔ یہ اہلکار تھانوں اور چوکیوں میں رائو انوار کی ٹیم کا حصہ سمجھتے جاتے تھے، چاہے ان تھانوں اور چوکیوں میں انچارج تبدیل ہوتے رہیں۔ تاہم یہ مخصوص اہلکار برسوں ایک ہی جگہ جمے رہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب وہی پولیس اہلکار واپس آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اب تک جن تھانوں اور چوکیوں پر وہی پرانے اہلکار لوٹ چکے ہیں۔ ان میں تھانہ سہراب گوٹھ، تھانہ سائٹ سپر ہائی وے، تھانہ گلشن معمار، تھانہ سچل اور چار چوکیوں الآصف چوکی، احسن آباد چوکی، افغان کیمپ چوکی اور سبزی منڈی چوکی شامل ہیں۔ یہ اہلکار رائو انور کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو آتے جاتے نظر میں رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمہارے احتجاج سے کیا ہوا ہے جو اب کچھ ہوگا۔ ہم پھر وہیں ہیں اور آگے بھی یہیں ہوں گے۔
اس ضمن میں پختون گرینڈ جرگہ کے نائب صدر ظفر محسود نے ’’امت‘‘ سے تفصیلی بات چیت میں کہا کہ ’’رائو انوار کے خلاف جب نقیب اللہ قتل کیس میں جے آئی ٹی بنی تھی، اس وقت کے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی نے ضلع ملیر کے تھانوں میں تعینات 30 سے پولیس اہلکاروں کو جن میں کانسٹیبل سے لے کر ایس ایچ او لیول تک کے افسران شامل تھے، انہیں رائو انوار کی ٹیم قرار دے کر ضلع ملیر بدر کرنے کی سفارش کی تھی اور کچھ عرصہ تک یہ اہلکار یہاں سے ہٹا بھی لئے گئے تھے۔ تاہم اب یہ لوٹ رہے ہیں جو تشویشناک بات ہے۔ اس کی وجہ سے علاقہ مکین ہراساں ہیں اور رائو انوار کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ایک بار پھر سے ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ خاص طور پر وہ کاروباری افراد جو کہ نقیب اللہ قتل کیس میں جرگہ سے ہمدردیاں رکھتے ہیں، انہیں ڈرایا جا رہا ہے‘‘۔
اختر خان جو جرگہ کے مقامی سرگرم کارکن بھی ہیں، انہوں نے بتایا کہ ’’سائٹ سپر ہائی وے اور گلشن معمار کے علاقوں کی آبادیوں میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 8 گھروں میں وارداتیں ہوئی ہیں، جن میں ملزمان گھروں کا مکمل صفایا کرکے فرار ہوئے ہیں۔ یہ ویسی ہی وارداتیں ہیں جو رائو انوار کے زمانے میں ہوا کرتی تھیں، جن میں علاقے کے پولیس اہلکار بھی شامل ہوتے تھے‘‘۔ ٭