جلال الدین حقانی امریکی بمباری سے زخمی ہوئے تھے

وجیہ احمد صدیقی
افغانستان میں روسی اور امریکی قبضے کیخلاف مسلح جدوجہد پر اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار پانے والے جلال الدین حقانی کے انتقال کا اعلان افغان طالبان کی جانب سے کیا گیا ہے۔ جبکہ عالمی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ ان کا انتقال چند سال پہلے ہوا تھا، جس کی تصدیق اب کی جا رہی ہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں جلال الدین حقانی کا تعلق حزب اسلامی افغانستان کے مولوی یونس خالص گروپ سے تھا اور 1996ء میں وہ طالبان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے۔ امریکیوں نے ان کے مجاہدوں کو حقانی نیٹ ورک کا نام دے رکھا ہے اور انہیں اسی گروپ کے حملوں سے شدید خطرہ رہتا ہے۔ جلال الدین حقانی کی رحلت کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کے صدر اور دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق نے ’’امت‘‘ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ… ’’جہاد افغانستان کے عظیم مجاہد مولانا جلال الدین حقانی کی وفات پور ی امت مسلمہ کیلئے عظیم سانحہ ہے۔ دنیا کی سپر پاور سوویت یونین کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں ان کا بنیادی کردار ہے۔ سامراجی طاقت سے ملک کو آزاد کرانے میں ان کا کردار اہم ہے۔ جلال الدین حقانی کے گھرانے کے 12 سے زائد افراد شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے، جن میں ان کے کئی جواں سال بیٹے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کے نتیجے میں مشرقی یورپ کی تمام ریاستیں اور سینٹرل ایشیا کی آٹھ دس ریاستیں سوویت یونین کے سامراجی پنجہ استبداد سے آزاد ہوئیں۔ جرمنی میں دیوار برلن ٹوٹ گئی اور امریکہ واحد سپر طاقت بن گیا۔ آزادی اور انسانی حقوق کے دعویدار امریکہ اور مغربی ممالک کو ان کی عظیم خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے، نہ کہ انہیں دہشت گرد قرار دے کر حقائق کو مسخ کیا جائے‘‘۔ مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت بھی افغانستان میں آزادی کی جنگ مولانا حقانی کے خاندان کی مرہون منت ہے۔ اقوام عالم کی آزادی کی پاسداری کے دعویدار مغرب کو آزادی کی اس جدوجہد کی قدر کرنی چاہیے اور اسلامی دنیا کو اس کی پشت پناہی کرنی چاہیے۔ مولانا حقانی مرحوم کی قربانیاں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ وہ وقت کے امام شاملؒ تھے، ان کا نام سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، سلطان محمود غزنویؒ اور ٹیپو سلطان شہیدؒ کی صف میں آتا ہے۔ مسلمان حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کی جانب سے مغربی طاقتوں کے خوف سے اپنے اس عظیم سپوت کی وفات پر چپ سادھ لینا ناشکری، بے حمیتی اور ضمیر کی موت ہے اور اس جرم کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔‘‘ مولانا سمیع الحق نے بتایا کہ ’’مولانا جلال الدین حقانی چند سال قبل امریکیوں کی بمباری سے شدید زخمی ہونے کے باعث مفلوج ہوکر رہ گئے تھے۔ بم کے ٹکڑے ان کی پیٹھ میں لگے تھے جس کی وجہ سے وہ بستر سے لگ گئے تھے۔ اسی حالت میں انہیں اپنے ایک بیٹے کی شہادت کی خبر ملی اور جب کسی نے ان سے تعزیت کی تو انہوں نے کہا کہ ’’مجھ سے تعزیت نہ کرو بلکہ مبارک باد دو‘‘۔ چار بیٹوں کے علاوہ ان کی اہلیہ اور ایک بہو نے بھی شہادت کا مرتبہ پایا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق وہ تقریباً دو سال سے بیمار تھے اور ان کے ساتھ ہمارا دو سال سے رابطہ بھی نہیں تھا۔ 2015ء میں بھی ان کے انتقال کی خبر آئی تھی، لیکن اس کی افغان طالبان کی جانب سے تصدیق نہیں کی گئی تھی۔ اس لیے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا انتقال کب ہوا اور تدفین کہاں کی گئی۔ تاہم جہاد کی موجودہ صورتحال میں اس قسم کے انکشافات سے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو فائدہ پہنچتا ہے۔ امریکی فوجی زمین پر اتر کر لڑنے کی صلاحیت سے بالکل عاری ہیں۔ وہ بزدلی کے ساتھ فضا سے بمباری کر کے بے گناہ عوام کا قتل عام کرتے ہیں۔ جلال الدین حقانی کے ایک بیٹے انس حقانی کو امریکیوں نے بگرام ایئر بیس پر قید کر رکھا ہے اور انہیں سزائے موت سنائی گئی ہے، لیکن سزا پر اس خوف سے عملدرآمد نہیں کیا جارہا ہے کہ ردعمل میں امریکہ اور اتحادی افواج کا بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے ۔آج بھی جلال الدین حقانی کے صاحبزادے سراج الدین حقانی طالبان کے نائب امیر ہیں اور دشمن پر ان کا دبدبہ و رعب قائم ہے‘‘۔
مولانا سمیع الحق کی گفتگو سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ مولانا جلال الدین حقانی کی وفات ہوچکی ہے۔ ان کے بیٹے جلال الدین حقانی کی عسکری صلاحیتوں کا تو ان کے دشمنوں نے بھی اعتراف کیا ہے۔ امریکی افواج کے سربراہ مائیک مولن نے 2011ء میں کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک پاکستانی انٹیلی جنس کا حقیقی ہتھیار ہے۔ امریکہ کا ہمیشہ سے یہی شک رہا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی مدد کرتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان نے اس نیٹ ورک کے لوگوں کو شمالی اور جنوبی وزیرستان سے نکال دیا ہے اور اب یہ لوگ اٖفغانستان کے شمالی علاقوں اور کابل کے نزدیک سے ہی قابض امریکی افواج پر حملے کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ امریکی، جلال الدین حقانی کو محض اس لیے پسند کرتے تھے کہ وہ سوویت یونین کی افواج کے ساتھ مقابلہ کرکے انہیں افغانستان سے نکلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے 1980ء کی دہائی میں جلال الدین حقانی نے ایک امریکی سینیٹر چارلی ولسن کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کیا تھا اور امریکی صدر رونالڈ ریگن سے ملاقات بھی کی تھی۔ لیکن اب جب وہ امریکی افواج کو اسی طرح افغانستان سے نکالنا چاہتے ہیں تو امریکی انہیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جتنے بھی خودکش حملے ہوتے ہیں، وہ حقانی نیٹ ورک ہی کرتا ہے۔ امریکہ نے مئی 2017ء میں کابل میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے کا الزام بھی حقانی نیٹ ورک پر لگایا تھا، اس دھماکے میں 150 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن سراج الدین حقانی نے اپنے ایک آڈیو پیغام میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ طالبان کا کام نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں ناکام ہوچکا ہے، لیکن اپنی شکست نہیں تسلیم نہیں کررہا ہے۔ امریکی تجزیہ نگار خود یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اتنے بڑے کمانڈر کے انتقال سے بھی طالبان کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

Comments (0)
Add Comment