امت رپورٹ
صدارتی الیکشن کے موقع پر تقسیم حزب اختلاف کے درمیان مزید دراڑ کے آثار نمایاں ہیں۔ پچھلے ایک سے ڈیڑھ ماہ کے دوران اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیوں کے ہونے والے اجلاسوں کی روداد سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر پیپلز پارٹی کی جانب سے شہباز شریف کو ووٹ نہ دیئے جانے پر اپوزیشن میں جو اختلاف پیدا ہوا تھا، صدارتی الیکشن کے معاملے پر رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی ہے۔ یوں چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی سے متعلق اپوزیشن کا مجوزہ پلان بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ ماہ کے اوائل اور وسط میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے سینئر رہنمائوں کے درمیان ہونے والے اجلاسوں میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو مل کر فارغ کرانے کا معاملہ ڈسکس ہوا تھا۔ تاہم اس کا طریقہ کار طے کرنا باقی تھا۔ اس حوالے سے ایک آپشن، دونوں پارٹیوں اور ان کے اتحادی ارکان سینیٹ کی جانب سے قرارداد کے ذریعے صادق سنجرانی کو گھر بھیجنے کا تھا۔ دوسرا آپشن چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا تھا۔ کچھ رہنمائوں کا خیال تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے چیئرمین سینیٹ کو فارغ کرنا آئینی طور پر درست نہیں ہو گا۔ آئین میں چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لئے اکثریتی قرارداد کا طریقہ موجود ہے۔ لہٰذا یہی طریقہ اختیار کیا جانا چاہئے۔ بعد ازاں دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں نے اتفاق کیا تھا کہ وزیر اعظم کے الیکشن کے بعد اس پلان کے طریقہ کار پر مزید بات چیت کی جائے گی۔ تاہم پیپلز پارٹی نے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ نہ دے کر اس منصوبے پر کسی حد تک پانی پھیر دیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاسوں میں شریک مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے رہنمائوں نے اس پر پیپلز پارٹی کے لیڈروں سے شکوہ بھی کیا تھا اور باور کرایا کہ اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم ان پی پی رہنمائوں کا کہنا تھا کہ یہ پارٹی کے شریک چیئرمین کی ہدایت تھی کہ شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر قبول نہیں کیا جائے اور یہ کہ پی پی پی انہیں ووٹ نہیں دے گی، لہٰذا اس سلسلے میں وہ بے بس ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس بدمزگی کے بعد ہونے والے ایک اجلاس میں سب کچھ بھلا کر مشترکہ صدارتی امیدوار لانے پر اتفاق کیا گیا۔ اور طے ہوا تھا کہ صدارتی الیکشن کا مرحلہ گزر جانے کے بعد چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی سے متعلق پلان پر عمل کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔ ذرائع کے بقول چونکہ پیپلز پارٹی نے اب صدارتی الیکشن پر بھی وزیر اعظم کے انتخاب والی کہانی دہرائی ہے، لہٰذا اپوزیشن کے متحد ہونے کی موہوم امید بھی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ایک عہدے دار کے مطابق جنہوں نے آصف زرداری کو شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے پر قائل کیا، انہوں نے ہی صدارتی الیکشن کے موقع پر بھی اپوزیشن کو منقسم رکھنے کا جادو چلایا۔ عہدیدار کے بقول ایک دوسرے کو چھریاں مارنے کے عمل کے سبب اب چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کا مجوزہ پلان بھی قابل عمل نہیں رہا ہے۔ کیونکہ نون لیگی قیادت سمجھتی ہے کہ وزیر اعظم اور صدر کے انتخابات کے موقع پر راستہ بدلنے والی پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ کو فارغ کرنے کے پلان پر بھی عمل نہیں کرے گی۔ عہدیدار نے بتایا کہ جب پیپلز پارٹی نے اپنے امیدوار اعتزاز احسن کو دستبردار کرانے سے یکسر انکار کر دیا تو شہباز شریف کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو میدان میں اتارنا پارٹی کی ایک سیاسی چال تھی۔ بعد ازاں نواز شریف نے بھی شہباز شریف کے اس فیصلے کی تائید کی۔ اس فیصلے کا مقصد یہ تھا کہ مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری کی دیرینہ دوستی کو آزمایا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ اس دوستی کی خاطر سابق صدر اپنے امیدوار اعتزاز احسن کو دستبردار کرا لیں اور اگر ایسا نہیں بھی ہوا تو کم از کم دونوں کے درمیان دوستی کا رشتہ ضرور کمزور ہو جائے گا۔ عہدیدار کے مطابق خود مولانا فضل الرحمن بھی بہت زیادہ پر اعتماد تھے کہ آصف زرداری ان کی بات نہیں ٹال سکتے ہیں۔ اس لئے صدارتی الیکشن سے ایک روز پہلے بھی مولانا نے آصف زرداری سے تفصیلی ملاقات کی۔ عہدیدار کے مطابق دوسری جانب اڈیالہ جیل میں لیگی رہنمائوں سے ملاقات کے دوران نواز شریف نے سختی سے ہدایت کی تھی کہ اگر پی پی پی اپنے امیدوار اعتزاز احسن کو دستبردار نہیں کراتی تو کسی صورت انہیں ووٹ نہ دیا جائے۔ کیونکہ اس صورت میں اعتزاز احسن کو ووٹ دینے کا مطلب عمران خان کو ووٹ دینا ہو گا۔ عہدیدار کے مطابق نواز شریف کا اس موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ اعتزاز احسن کو کسی طور پر دستبردار نہیں کرایا جائے گا، کیونکہ معاملہ مجبوریوں کا ہے۔ نون لیگ کے ایک اور رہنما کے مطابق یہ سوچ صرف نواز شریف کی ہی نہیں، بلکہ پارٹی کے بیشتر رہنمائوں کا خیال ہے کہ اعتزاز احسن کو آصف زرداری نے نہیں بلکہ کسی اور نے میدان میں اتارا تھا۔ رانا ثنا اللہ تو اس نوعیت کی باتیں کھل کر کہتے رہے اور ان کا یہاں تک دعویٰ ہے کہ آصف زرداری کے کیس مینیج ہو جائیں گے۔
صدارتی الیکشن کے ابتدائی غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ میں عارف علوی کو ملنے والے 212 ووٹ اور مولانا فضل الرحمن اور اعتزاز احسن کے مجموعی ووٹ بھی 212 ہیں۔ تاہم چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ووٹوں کی گنتی کو ملا کر پی ٹی آئی کے امیدوار عارف علوی نے کل 353 ووٹ حاصل کئے، جبکہ اپوزیشن کے مولانا فضل الرحمن اور اعتزاز احسن کے مجموعی ووٹوں کی تعداد 309 ہے۔ اس طرح ہار اور جیت میں 44 ووٹ کا فرق ہے۔ پی پی اور نون لیگی امیدواروں کو یکجا کرنے کے لئے آخری وقت تک کوشش کرنے والے ایک چھوٹی اپوزیشن پارٹی کے عہدیدار کو اب بھی خوش فہمی ہے کہ اگر دو بڑی پارٹیاں ایک ہو جائیں تو یہ واضح فرق ختم ہو سکتا تھا۔ اس عہدیدار کے بقول تحریک انصاف اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے ایسے کئی ارکان تھے، جو صرف ذاتی تعلقات کی وجہ سے اعتزاز احسن کو ووٹ دینے پر آمادہ تھے۔ تاہم جب انہوں نے دیکھا کہ آخری وقت تک دونوں پارٹیاں مشترکہ امیدوار لانے میں ناکام رہیں اور الگ الگ امیدوار میدان میں اتارے جانے کے سبب اپوزیشن کی کامیابی کے امکانات ختم ہو چکے تو انہوں نے اپنے ووٹ ضائع کرنے کے بجائے حکومتی امیدوار کو ڈالے۔ خوش فہم عہدیدار کا دعویٰ تھا کہ اعتزاز کے دوست ارکان کے علاوہ پانچ سے چھ ووٹ چمتکار کے ذریعے بھی حاصل کئے جا سکتے تھے۔