سچے خوابوں کے سنہرے واقعات

عبد الملک بن مروان کا خواب:
ابراہیم بن سعید القرشی سے مروی ہے۔ اس نے کہا: عبد الملک بن مروان نے خواب میں دیکھا کہ ہشام بن اسماعیل کی لڑکی نے اس کا سر پھوڑ دیا تو اس کے 20 دانت ٹوٹ گئے ہیں۔ اسے اس سے پریشانی ہوئی۔ اس نے سعید بن مسیبؒ سے اس خواب کا تذکرہ کیا تو سعیدؒ نے کہا: اس لڑکی سے ایک لڑکا پیدا ہوگا، جو بیس سال تک خلافت کرے گا، چنانچہ اس لڑکی نے خلیفہ ہشام کو جنم دیا۔ (تعبیر الرؤیا لابن قتیبۃ ملحق، ص: 396)
شہید نوجوان کا خواب:
ابو قدامہ شام کے رہنے والے مسلمانوں کے لشکر کے سپہ سالار تھے۔ ان سے لوگوں نے کہا: آپ جہاد کے بہت معرکوں میں شریک رہے ہیں، کوئی خوبصورت واقعہ سنائیں۔ انہوں نے جو واقعہ سنایا، اس کا خلاصہ یہ ہے:
صلیبی جنگیں اپنے عروج پر تھیں۔ مسلمان مجاہدین سر پر کفن باندھ کر دشمن کے مقابلے کے لئے نکلتے تھے۔ رقہ دریائے فرات، شام کے قریب ایک قصبہ ہے۔ میں وہاں ٹھہرا تو ایک عورت آئی۔ اس نے دروازے پر دستک دی اور ایک چھوٹی سی پوٹلی میرے حوالے کی۔ اسے کھولا تو بالوں کی بنی ہوئی ایک رسی اور ایک خط نکلا۔ اس نے خط میں لکھا: میرے پاس جہاد میں چندہ دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ یہ رسی ہے، یہ مجاہدین کے گھوڑوں کے کام آئے گی۔
اگلی صبح جب مجاہدین کا قافلہ سرحد کی طرف جانے لگا، ایک نوجوان میرے پاس آیا۔ اس نے کہا: میں ہر قیمت پر جہاد میں جانا چاہتا ہوں، مجھے چھوٹی عمر کا سمجھ کر واپس نہ کیجیے گا۔ رات جو عورت آپ کو ایک چھوٹی سی پوٹلی دے گئی تھی۔ وہ میری والدہ تھی۔ میرا والد اور میرے ماموں دونوں شہید ہو چکے ہیں۔ اس نے مجھے نصیحت کی ہے کہ دشمنوں کا مقابلہ کرنا، بھاگ نہ جانا۔ اپنے رب سے دعا کرنا کہ وہ تمہیں اپنے والد اور ماموں کے ساتھ جنت میں داخل کر دے۔ پھر وہ اصرار کر کے کھانے کا انتظام کرنے لگا۔ کھانا پکاتے پکاتے وہ سو گیا۔
ایک شخص اس کا پتہ کرنے کے لئے گیا تو اسے سویا ہوا پایا، مگر اسے بیدار نہ کیا، بلکہ خود کھانا پکانے لگا۔ اچانک وہ سویا ہوا نوجوان ہنسنے لگا۔ پھر وہ ہنستے ہنستے ہی بیدار ہوگیا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ مجھے خواب آیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میں جنت میں ہوں، میں نے وہاں سونے جواہرات کا ایک محل دیکھا۔ اس میں ایک نہایت خوبصورت عورت دیکھی، اس کا نام مرضیہ تھا۔ وہ مجھے کہنی لگی: ہاں ہاں! اے نوجوان! تم نیک نوجوان ہو، میں تمہارے لئے پیدا کی گئی ہوں۔ میری اور تمہاری ملاقات کل ظہر کے وقت ہوگی۔ میرے چہرے پر جو ہنسی بکھر گئی تھی، وہ اس کی گفتگو ہی کی وجہ سے تھی۔
ابوقدامہ کہتے ہیں: میں نے اس سے کہا: تم نے اچھا خواب دیکھا ہے۔
پھر وہ نوجوان دشمن کے ساتھ جہاد کرنے لگا۔ شدید زخمی ہوگیا۔ مجھے یاد کرنے لگا۔ تلاش کرتے کرتے میں نے اسے اس حال میں پایا کہ وہ شدید زخمی تھا۔ اس نے مجھے پہچان لیا۔ پھر اس نے مجھے وصیت کی کہ اگر میں شہید ہو جاؤں تو مجھے اسی مقام پر دفن کردینا۔ کل خدا نے چاہا تو میں اپنے والد اور ماموں کے ساتھ جنت میں ہوں گا۔ میرے خون آلود کپڑے میری والدہ کے پاس لے جانا۔ انہیں کہنا تمہارا بچہ جنت میں چلا گیا ہے۔
میری چھوٹی سی بہن ہے، مجھ سے بہت پیار کرتی ہے، اسے حوصلہ دلانا۔ والدہ کو بھی ملاقات کے وقت بتانا تمہارے بچے کا انجام بہت اچھا ہوا۔ وہ جنت میں خوشی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔
ابو قدامہ کہتے ہیں: میں اس کی والدہ محترمہ کو ملا اور اس کی بہن سے ملاقات کی۔ بہن تو چیخ مار کر بے ہوش ہوگئی۔ والدہ نے اپنے بچے کے خون آلودہ کپڑے دیکھے تو خوش ہوگئی کہ میرا بچہ بھی جنت میں میرے خاوند اور میرے بھائی سے ملاقات کر رہا ہے۔
ابو قدامہ کہتے ہیں: میں نے اس قدر زبردست جذبہ جہاد سے سرشار نوجوان اور ایسی صابرہ خاتون آج تک نہیں دیکھی، جو جہاد اور اپنے رب سے اتنی شدید محبت کرنے والی ہو۔ (سنہری کرنیں، ص: 345-331 کا خلاصہ)(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment