حضرت ابوذر غفاریؓ نہایت قدیم الاسلام صحابی ہیں، وہ مکہ میں آ کر ایمان لائے تو رسول اکرمؐ نے ان کو ہدایت کی کہ اس وقت اپنے وطن واپس چلے جائو اور اپنی قوم کو میری بعثت کی خبر کرو، لیکن انہوں نے نہایت پرجوش لہجے میں کہا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں کفار مکہ کے سامنے ہی کلمۂ توحید کا اعلان کروں گا، حالت یہ تھی کہ وہ غریب الوطن تھے، مکہ میں کوئی ان کا حامی و مددگار نہ تھا، لیکن وہ مسجد حرام میں آئے اور باآواز بلند کلمہ توحید و رسالت کا اعلان کیا۔
اس آواز کا سننا تھا کہ کفار ان پر ٹوٹ پڑے اور سخت زد و کوب کیا، لیکن انہوں نے دوسرے دن پھر اسی جوش کے ساتھ خانۂ کعبہ میں اس کلمے کا اعلان کیا اور کفار نے پھر اسی طرح انہیں تکالیف پہنچائیں۔
حضرت سفینہؓ اور شیر کی بے بسی
حضرت سفینہؓ جو نبی اکرمؐ کے خادم تھے، یہ ایک مرتبہ کشتی میں سوار ہوئے، اچانک وہ ٹوٹ گئی، تو یہ ایک تختے پر سوار ہو گئے، یہاں تک کہ ایک جزیرے کے پاس اترے، پیدل چل رہے تھے کہ اچانک سامنے سے ایک شیر آ گیا، حضرت سفینہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ:
اے ابو الحارث (یہ شیر کی کنیت ہے) میں رسول اکرمؐ کا غلام اور خادم ہوں اور میں راستہ سے بھٹک گیا ہوں۔
یہ سن کر شیر دم ہلاتا ہوا آگے چلتا رہا اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا، یہاں تک کہ مجھے درست راستے تک پہنچا دیا، پھر آواز لگائی، جس سے میں سمجھ گیا کہ یہ مجھے رخصت کرتے ہوئے الوداع کہہ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭