معارف القرآن

معارف و مسائل
اَمْ لَمْ یُْنَبَّاْ… اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک خاص صفت وَفّٰی بیان فرمائی گئی۔ وفا کے معنی کسی وعدہ یا معاہدے کو پورا کردینے کے آتے ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ کی خاص صفات ایفائے عہد کی کچھ تفصیل:
مراد یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جو حق تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ وہ حق تعالیٰ کی اطاعت کریں گے اور اس کا پیغام مخلوق کو پہنچا دیں گے، انہوں نے اس معاہدہ کو ہر حیثیت سے پورا کر دکھایا، جس میں ان کو بہت سخت آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا، وَفّٰی کی یہی تفسیر ابن جریر، ابن کثیر وغیرہ نے اختیار کی ہے۔
بعض روایات حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خاص خاص اعمال کو لفظ وَفّٰی کا سبب بنایا گیا ہے۔ وہ اس کے منافی نہیں، کیونکہ اصل وفاء عہد عام ہے ، تمام احکام الٰہیہ کی تعمیل و اطاعت جس میں اپنے اعمال بھی داخل ہیں اور فرائض رسالت و نبوت کے ذریعہ عام خلق خدا کی اصلاح بھی، انہیں اعمال میں یہ عمل بھی ہیں، جن کا ذکر ان روایات حدیث میں ہے۔
مثلاً ابن ابی حاتم نے حضرت ابو امامہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اقدسؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور پھر ان سے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ وَفّٰی کا مطلب کیا ہے؟ ابوامامہؓ نے عرض کیا کہ خدا اور اس کے رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں، تو آپؐ نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ: ’’انہوں نے اپنے دن کے اعمال کی تکمیل اس طرح کر دی کہ شروع دن میں چار رکعت (نماز اشراق کی) پڑھ لیں۔‘‘ (ابن کثیر)
اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، جو ترمذی نے حضرت ابوذرؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا: ’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے! تو شروع دن میں میرے لئے چار رکعتیں پڑھ لیا کر تو میں آخر دن تک تیرے سب کاموں کی کفالت کروں گا۔‘‘ (ابن کیثر) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment