حضرت وہب بن منبہؒ کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ جل شانہٗ سے حاجتیں نماز کے ذریعے طلب کی جاتی ہیں اور پہلے لوگوں کو جب کوئی حادثہ پیش آتا تھا تو وہ نماز کی طرف متوجہ ہوتے تھے، جس پر بھی کوئی حادثہ گزرتا، وہ جلدی سے نماز کی طرف رجوع کرتا۔ درحقیقت نماز ایسی ہی بڑی دولت ہے کہ حق تعالیٰ جل شانہٗ کی رضا وخوشنودی کے علاوہ دنیا کے مصائب سے بھی اکثر نجات کا سبب ہوتی ہے۔ اور سکون قلب تو حاصل ہوتا ہی ہے۔
حضرت ابن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے جنت کے جانے میں دو رکعت نماز پڑھنے میں اختیار دے دیا جائے تو میں دو رکعت ہی کو اختیار کروں گا۔ اس لئے کہ جنت میں جانا میری اپنی خوشی کے واسطے ہے اور دو رکعت نماز میرے رب کی رضا ہے۔
کہتے ہیں کہ کوفہ (بغداد کا ایک شہر) میں ایک قلی (مزدور) تھا، جس پر لوگوں کو بہت اعتماد تھا۔ امین اور دیانت دار ہونے کی وجہ سے تاجروں کا سامان، روپیہ وغیرہ بھی لے جاتا۔ ایک مرتبہ وہ سفر میں جا رہا تھا، راستہ میں ایک شخص اس کو ملا، پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟
قلی نے کہا: فلاں شہر کا۔ وہ کہنے لگا: مجھے بھی وہیں جانا ہے، میں پاؤں چل سکتا تو تیرے ساتھ ہی چلتا، کیا ممکن ہے کہ ایک دینار کرایہ پر مجھے خچر پر سوار کرے۔
قلی نے کہا ٹھیک ہے۔ وہ آدمی سوار ہوگیا۔ راستہ میں ایک دوراہہ (دو راستے) آگیا۔ سوار نے پوچھا کدھر کو چلنا ہے؟ قلی نے شارع عام کا راستہ بتایا تو سوار نے کہا یہ دوسرا راستہ قریب ہے اور اس میں جانور کے لئے بھی بڑی سہولت ہے کہ سبزہ اس پر خوب ہے۔ مزدور نے کہا میں نے یہ راستہ دیکھا نہیں۔ سوار نے کہا میں بارہا اس راستہ پر چلا ہوں۔ قلی نے کہا اچھی بات ہے۔
دونوں استی راستہ پر چلے، تھوڑی دیر چل کر وہ راستہ ایک خوفناک جنگل پر ختم ہوگیا، جہاں بہت سے مردے پڑے تھے۔ وہ ظالم سواری سے اترا اور کمر سے خنجر نکال کر قلی کے قتل کا ارادہ کیا۔ قلی نے کہا کہ ایسا نہ کر تو مجھ سے یہ خچر مع سامان سب کچھ لے لے، یہی تیرا مقصود ہے۔ مجھے قتل نہ کر، اس ظالم قزاق نے نہ مانا اور قسم کھالی کہ پہلے تجھے ماروں گا، پھر یہ سامان لوں گا۔ اس نیک آدمی نے بہت منت سماجت اور عاجزی کی، مگر اس سفاک درندے نے ایک نہ مالی، قلی نے کہا اچھا مجھے دو رکعت آخری نماز پڑھنے دے۔ اس نے قبول کیا اور ہنس کر کہا جلدی سے نماز پڑھ لے، ان مردوں نے بھی مجھ سے یہی درخواست کی تھی، مگر ان کی نماز نے کچھ بھی کام نہ دیا اور قلی نے نماز شروع کی الحمد شریف پڑھ کر کوئی سورۃ بھی یاد نہ آئی، ادھر وہ ظالم کھڑا تقاضا کر رہا تھا کہ جلدی ختم کر، بے اختیار قلی کی زبان سے یہ آیت مبارکہ جاری ہوئی۔ امن یجیب المضطر…(پ 20 النمل آیت 62)
ترجمہ: بھلا کون پہنچتا ہے بے کس کی پکار کو جب اس کو پکارتا ہے اور دور کردیتا ہے سختی۔
یہ پڑھ رہا تھا کہ ایک سوار نمودار ہوا جس کے سر پر چمکتا ہوا خود (لوہے کی ٹوپی، جس کو آج کل ہیلمٹ کہتے ہیں) تھا۔ اس نے نیزہ مارکر اس ظالم کو ہلاک کردیا، جس جگہ وہ آدمی مر کر گرا، آگ کے شعلے اس جگہ سے اٹھنے لگے، یہ نمازی بے اختیار سجدے میں گر گیا۔ نماز ختم کرنے کے بعد حق تعالیٰ کا شکرادا کیا، پھر وہ سوار کی طرف دوڑا۔ اس سے پوچھا خدا کے واسطے اتنا بتادو کہ تم کون ہو، کیسے آئے؟ اس نے کہا کہ میں اس آیت کا غلام ہوں، اب تم محفوظ و مامون ہو، جہاں چاہو جاؤ۔ یہ کہہ کر چلا گیا۔ (فضائل نماز ص 329 بحوالہ نزہۃ المجالس)
٭٭٭٭٭