حضرت اُم سلیمؓ سے حضرت ابو طلحہؓ کی کئی اولادیں ہوئیں، لیکن سوائے عبد اللہؓ کے کوئی زندہ نہ رہا۔ حضرت ابو طلحہؓ کے ایک بیٹے کا نام ابو عمیرؓ تھا۔ اس نے بچپن میں ایک لال (سرخ رنگ کا خوش آواز پرندہ) پال رکھا تھا۔ اتفاق سے لال مر گیا۔ اس کو نہایت غم ہوا۔ رسول اقدسؐ ان کے گھر تشریف لائے تو اس کو غمگین پاکر پوچھا: آج یہ سست کیوں ہے؟ بتایا گیا کہ اس کا پرندہ مر گیا ہے۔ آنحضرتؐ نے اس کو ہنسانے کے لئے ایک لطیف سا جملہ فرمایا:
’’اے ابو عمیر! تمہارے پرندے نے کیا کیا؟‘‘
آپؓ کی زندگی کا ایک نہایت اہم واقعہ یہ بھی ہے کہ…
آپ کا ایک لڑکا چند روز سے بیمار تھا۔ ایک روز آپ گھر سے باہر کسی کام سے گئے واپس آئے تو پوچھا وہ کیسا ہے؟ بتایا گیا آرام و سکون میں ہے۔ وہ سمجھے شاید سورہا ہے۔ کھانا کھایا اور سو گئے۔ اس رات میاں بیوی ملے بھی، صبح معلوم ہوا کہ وہ بیماری کی اذیت سے نجات پاکر اپنے رب کو سدھار گیا ہے۔ اس لئے آپ کی زوجہ نے کہا تھا کہ سکون میں ہے۔ آپؓ نے ساری بات حضورؐ کو بتائی۔ آپؐ نے دعا فرمائی کہ خدا آپ کی اس رات میں برکت عطا فرمائے۔
اس دعا کی برکت سے عبد اللہؓ پیدا ہوئے اور آنحضرتؐ نے ان کو گھٹی دی۔ یہ اپنے زمانہ کے تمام ہم عمروں پر فضیلت رکھتے تھے۔ ان ہی سے حضرت ابو طلحہؓ کی نسل چلی۔ ان کے دو بیٹے تھے۔ اسحاقؓ اور عبداللہؓ، عبداللہؓ کے صاحبزادے یحییٰؒ تھے اور یہ سب اپنے عہد میں مرجع خلائق اور علم حدیث کے امام تھے۔
ایک دن حضرت ابو طلحہؓ نے نفلی روزہ رکھا تھا۔ اتفاق سے اسی دن برف پڑی۔ وہ اٹھے اور اولے چن چن کر کھانے لگے۔ لوگوں نے کہا آپ تو روزے سے ہیں۔ آپ نے جواب دیا: حصول برکت کے لئے کھا رہا ہوں۔ (بعد میں اس نفلی روزے کی قضا کی)
حضرت ابوطلحہؓ کو شعر و سخن کا بھی ذوق تھا۔ میدان جنگ میں بھی خوب اشعار پڑھتے تھے۔ یہ شعر انہی کا ہے:
انا ابو طلحۃ واسمی زید
وکل یوم فی سلاحی صید
پاکیزہ اخلاق و اوصاف: حضرت ابو طلحہؓ کا سب سے بڑا اخلاقی جوہر حب رسولؐ تھا۔ ایسی حالت میں جبکہ تمام مسلمان جنگ کی شدت سے مجبور ہوکر میدان میں منتشر ہوگئے تھے اور رسول پاکؐ کے پاس معدو دے چند صحابہ رہ گئے تھے۔ حضرت ابو طلحہؓ کا اپنی ذات کو رسول اقدسؐ پر قربان کرنے کے لئے آگے بڑھنا اور آپ کے سامنے کھڑے ہوکر کفار کے وار سہنا، حامل نبوت پر جو تیر آئے ان کو اپنے سینے پر روکنا اور آخر اسی حالت میں اپنا ہاتھ شل کروا لینا حب رسولؐ کا وہ لازوال نشان ہے، جو ابد تک نہیں مٹ سکتا۔
اسی محبت کا اثر تھا کہ حضرت ابو طلحہؓ آنحضرتؐ کے ساتھ خصوصیت سے تمام معرکوں میں ساتھ رہتے تھے اور ان کا اونٹ، رسول کریمؐ کے اونٹ کے برابر چلتا تھا۔ غزوئہ خیبر سے واپسی کے وقت حضرت صفیہؓ آنحضرتؐ کے اونٹ پر سوار تھیں۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر ناقہ ٹھوکر لے کر گری۔ رسول اقدسؐ اور حضرت صفیہؓ دونوں زمین پر آرہے۔ حضرت ابو طلحہؓ سواری سے فوراً کود پڑے اور رسول اقدسؐ کے پاس پہنچ کر کہا:
’’خدا مجھے آپ پر قربان کرے! آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘
حضورؐ نے فرمایا ’’مجھے چوٹ نہیں لگی، تم ذرا عورت کی خبر لو‘‘۔
حضرت ابو طلحہؓ منہ پر رومال ڈال کر حضرت صفیہؓ کے پاس پہنچے اور ان کو کجاوہ درست کرکے بٹھایا۔
ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں دشمنوں کا کچھ خوف معلوم ہوا۔ رسول اقدسؐ حضرت ابو طلحہؓ کے گھوڑے جس کا نام مندوب تھا پر سوار ہوکر جس طرف سے اندیشہ تھا ادھر روانہ ہوئے۔ حضرت ابو طلحہؓ پیچھے پیچھے چلے، لیکن ابھی پہنچنے نہ پائے تھے کہ آنحضرتؐ تشریف لے آئے۔ راستے میں ملاقات ہوئی۔ فرمایا وہاں کوئی دشمن نہیں ہے اور ہاں تمہارا یہ گھوڑا بہت تیز رفتار ہے۔
حضرت ابو طلحہؓ کو آنحضرتؐ سے ایسی محبت تھی، جو ہر جگہ اور ہر کام میں اثر دکھاتی تھی، یہاں تک کہ جب ان کے گھر میں کوئی چیز آتی تو خود رسول اقدسؐ کے پاس بھیج دیتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت انسؓ ایک خرگوش پکڑ کر لائے۔ حضرت ابو طلحہؓ نے اس کو ذبح کیا اور ایک ران آنحضرتؐ کی خدمت میں بھیج دی۔ آپؐ نے یہ معمولی، لیکن پر خلوص نذرانہ قبول فرمایا۔ اسی طرح حضرت ام سلیمؓ نے ایک طباق میں خرمے بھیجے۔ حضورؐ نے قبول فرما کر ازواج مطہرات اور صحابہ میں تقسیم فرما دیئے۔
رسول اکرمؐ بھی اس محبت کی نہایت قدر کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپؐ حج کے لئے مکہ تشریف لے گئے اور منیٰ میں حلق کرایا تو سر مبارک کے داہنے طرف کے بال تو اور لوگوں میں تقسیم ہوگئے۔ بائیں طرف کے سب موئے مبارک حضرت ابو طلحہؓ کو مرحمت فرمائے۔ حضرت ابو طلحہؓ اس قدر خوش ہوئے کہ گویا دونوں جہاں کا خزانہ ہاتھ آگیا۔
جب آپ کے ہاں عبد اللہ نامی بیٹے متولد ہوئے تو آپ نے ان کو آنحضرتؐ کی خدمت میں بھیجا۔ آپؐ نے کچھ کھجور چبا کر اس سے لڑکے کو گھٹی دی۔ لڑکے نے منہ سے اس آب حیات کی گھٹی لی اور کھجور کو مسوڑھے سے دابنے لگا۔ حضورؑ نے فرمایا دیکھو انصار کو کھجوروں سے فطری طور پر محبت ہے۔ اس لڑکے کا نام آنحضرتؐ نے عبداللہ رکھا۔ رسول اکرمؐ کے لعاب مبارک کا یہ اثر تھا کہ حضرت عبد اللہؓ تمام نوجوان انصار پر فوقیت رکھتے تھے۔ (بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭