لفظ چائے، دراصل چینی زبان کا لفظ ہے، جو دو لفظوں سے مرکب ہے ’چا‘ اور ’ئے‘۔ چائے اس مشروب کو کہتے ہیں جس میں یہ بوٹی ڈال کر گرم کر کے اس کا عرق نکالا جاتا ہے اور ’ئے‘ پتی کو کہتے ہیں، جو پینے کیلئے نہیں بلکہ پھینکنے کیلئے ہوتی ہے۔ لغوی معنوں میں سبز گھاس کو کہا جاتا ہے لیکن اصطلاحاً اس پودے کیلئے استعمال ہونے لگا جس سے ’’چائے‘‘ بنائی جاتی ہے۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں اس کیلئے بولا جانے والا لفظ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یا من و عن چینی زبان ہی سے اخذ کیا گیا ہے۔اْردو، ترکی، چینی اور روسی میں چائے، فارسی میں چائے خطائی، پنجابی میں چائے ، سندھی میں چانھ، پشتو میں ساؤ، عربی میں شائی، انگریزی میں ٹی (TEA) فرانسیسی میں تھائے اور لاطینی میں کوملیا تھیفرا (Commllia Thefera) کہتے ہیں۔چائے دنیا کی پسندیدہ مشروب ہے۔ یہ چائے کے پودے کی پتیوں کو چند منٹ گرم پانی میں ابالنے سے تیار ہوتی ہے۔ پھر اس میں ضرورت اور خواہش کے مطابق چینی اور دودھ ملاتے ہیں۔چائے میں کیفین کی موجودگی پینے والے کو تروتازہ کر دیتی ہے۔چائے کے پودے کا اصل وطن چین، تبت، نیپال،میانمار، سری لنکا، انڈونیشیا، برازیل، کینیا، ارجنٹائن، زمبابوے، بنگلہ دیش اور بھارت شامل ہیں۔
چائے کی دریافت آج سے پانچ ہزار سال قبل چین میں ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ چین (شین یا سین) میں شہنشاہ دوم شین نونگ ( 2737 سے 2697 قبل مسیح) نے علاج کیلئے دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ چائے بھی دریافت کی۔ شین نونگ کا مطلب ہے چین کا مسیحا۔ چائے ایک سدا بہار جھاڑی کے پتّوں سے بنتی ہے۔ شروع میں سبز پتوں کو دبا کر ٹکیاں بنا لی جاتیں جن کو بھون لیا جاتا تھا۔ استعمال کے وقت ٹکیہ کا چورہ کر کے پیاز۔ ادرک اور مالٹے یا سنگترے کے ساتھ ابال کر یخنی جس کو انگریزی میں سوپ کہتے ہیں بنا لی جاتی اور معدے، بینائی اور دیگر بیماریوں کے علاج کیلئے پیا جاتا۔ساتویں صدی میں چائے کی ٹکیہ کا چورا کر کے اسے پانی میں ابال کر تھوڑا سا نمک ملا کر پیا جانے لگا۔ یہ استعمال دسویں صدی کے شروع تک جاری رہا۔
آج سے دو سو سال قبل لکھی جانے والی معروف طبی کتاب مخزن الادویہ، میں پرانی عربی کتب سے حکیم مرزا قاضی کے حوالے سے ایک واقعہ درج ہے کہ زمان قدیم میں چین کا ایک شہنشاہ اپنے ایک مصاحب سے ناراض ہو گیا اور اسے دیس نکالا دے دیا۔ وہ غریب مدتوں جنگلوں، ویرانوں اور پہاڑوں میں در بدر ٹھوکریں کھاتا رہا۔ کھانے پینے کی کوئی چیز اس کے پاس باقی نہ رہی۔ ایک دن بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر وہ ایک پہاڑ کے دامن میں ہمت ہار کر گر گیا۔ کچھ دیر بعد ہوش آئی تو بھوک نے پھر تڑپا کر رکھ دیا۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے وہاں پر اْگی ہوئی ایک گھاس کے پتے توڑ توڑ کر کھانا شروع کر دیئے، مگر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے محسوس کیا کہ صرف اس کی بھوک کی تسکین ہی نہیں ہوئی بلکہ اس کے جسم میں نئی قوت بھی آ گئی ہے۔ کئی روز تک وہ دامن کوہ میں مقیم رہا اور اس گھاس کو بطور غذا استعمال کرتا رہا۔ جس سے اس کی صحت قابل رشک ہو گئی۔ وہ وہاں سے شہر لوٹ آیا اور بادشاہ کے مصاحبین اس سے عجیب و غریب گھاس کا ذکر کیا جو اس کی حیات نو کا سبب بنی۔ مصاحبین سے یہ بات بادشاہ تک پہنچی۔ اس معتوب درباری کو طلب کیا گیا اور بادشاہ اس کی قابل رشک صحت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شاہی طبیبوں کو اس کے ساتھ بھیجا گیا اور پہاڑوں سے وہ گھاس منگوا کر تجربہ کیا گیا تو وہی فوائد ظاہر ہوئے جو اس مصاحب نے بیان کیے تھے۔ چنانچہ اس وقت سے اس گھاس، یعنی چائے کا استعمال شروع ہو گیا۔ عرصہ دراز تک وہ بطور ٹانک شاہی خاندان اور امرائے حکومت تک محدود رہی۔ پھر عام لوگ بھی اسے استعمال کرنے لگے اور آہستہ آہستہ چین کے لوگوں کا قومی مشروب بن گئی۔
چائے کا پودا چین سے دوسرے تمام ملکوں میں مسلمان سیاحوں کے ذریعے پہنچا۔ ایک مسلمان سیاح سلیمانی سیرانی، جس نے ابو زید سیرانی کے ساتھ کئی مرتبہ چین کا سفر کیا تھا اپنی تالیف سلسلے التاریخ (مطبوعہ158) میں لکھا ہے ۔ ’’چین میں ایک قسم کی گھاس پائی جاتی ہے۔ جسے وہاں کے لوگ جوش دے کر پیتے ہیں اور تمام شہروں میں بڑے وسیع پیمانے پر وہ گھاس بکتی ہے اس سے چینی حکومت کو بڑی آمدنی ہوتی ہے۔ وہاں کے لوگ اس گھاس کو ساخ (چاہ) کہتے ہیں۔ اس میں قدرے تلخی پائی جاتی ہے۔ اسے کھولتے ہوئے پانی میں ڈال کر پیتے ہیں اور بہت ہی مفید اور مقوی ٹانک سمجھتے ہیں جس کا کوئی دوسرا مشروب مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘ ساخ دراصل چائے ہی کا بگڑا ہوا نام ہے کیونکہ عرب ’’چ‘‘ کا تلفظ ادا نہیں کر سکتے اس لیے ’’چاہ‘‘ سے ساخ بن گیا۔
جاپان میں اس کا باقاعدہ استعمال پندرھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ روس میں پہلی بار چاہئے1683 ء میں وسطی منگولیا میں مقیم روسی سفیر ستارکوف کے ذریعہ ماسکو پہنچی۔ منگولیا کے حکمران التین خاں نے زار روس کو بطور تحفہ چائے کے دو سو پیکٹ ارسال کیے۔ ستارکوف اسے بیکار چیز سمجھتا تھا اور بادلِ نخواستہ اسے ماسکو لے گیا تھا، لیکن زارِ روس اور اس کے مصاحبوں کو اتنی پسند آئی کہ اسے قومی مشروب کا درجہ دے دیا گیا۔سولہوی صدی کے آخر میں اہل پرتگال اس گھاس کو یورپ لائے۔ 1653 ء میں پہلی بار پیرس پہنچی اور جلد ہی اس نے وہاں کے حکمرانوں کے دل میں گھر کر لیا۔ حتیٰ کہ1685 ء میں شاہی باغات میں اس کی کاشت شروع کر دی گئی۔سترھویں صدی میں ایک عیسائی مشنری جیوٹ ٹراگالٹ نے اپنے سفرنامے میں چائے کا تذکرہ کیا اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یورپ کو چائے چکھانے کا سہرا ولندیزی ایسٹ اینڈیا کمپنی کے سر ہے۔ 1666ء میں لارڈ آرلنگٹن کے ذریعے براستہ ہالینڈ انگلستان پہنچی۔ اسی سال برطانوی پارلیمنٹ نے چائے کے متعلق ایک بل پاس کیا، جس کی رو سے تیار شدہ چائے کے ایک گیلن پر آٹھ پنس ٹیکس لگا دیا گیا۔ اہل یورپ جو اپنے آپ کو عقل و دانش کا سرچشمہ سمجھتے ہیں، مدتوں اس کے طریق استعمال کو نہ سمجھ سکے۔ وہ چائے کو پانی میں پکا کر اس کا عرق پھینک دیتے اور پتیاں چبا لیتے تھے۔ سالہا سال کے بعد انہیں اپنی اس حماقت کا احساس ہوا۔ ملکہ این کے زمانہ میں وہ، اس کے تمام وزراء و امراء سب اس کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو گئے اور پھر اس کی دلنواز خوشبو اور نظر نواز رنگت نے ہر چھوٹے بڑے کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور پھر یہ بازار کی زینت بن گئی۔
جہاں تک برصغیر میں چائے کے تعارف کا تعلق ہے وہ انگریز بہادر کے ذریعہ ہوا، جو تجارت کی آڑ میں ہندوستان میں قابض ہو گئے۔ جہاں جہاں ان کے قدم پہنچے وہاں وہاں چاہے بھی پہنچی۔ 1857 ء میں جنگ آزادی کے بعد فرنگیوں نے جب پورے ملک پر قبضہ کر لیا تو چائے نے بھی اپنا تسلط جما لیا۔ انگریز تو 1947 ء میں رخصت ہو گیا لیکن چائے کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی۔ برصغیر والوں نے چائے نوشی میں یورپ اور چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کے بغیر اب نہ کوئی تقریب مکمل ہوتی ہے، نہ مہمان نوازی کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔شروع شروع میں برصغیر اور خصوصاً پنجاب کے لوگوں نے چائے کی بے حد مخالفت کی، لیکن چائے کمپنیوں نے گاؤں گاؤں جا کر مفت چائے پلا کر اس کا ایسا چسکاڈالا کہ وہ غیر رسمی طور پر یہاں کا قومی مشروب بن کر رہ گئی۔
خوشبو دار، ذائقہ دار اور گرما گرم چائے، ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی ہو جو چائے پسند نہ کرتا ہو۔ دودھ والی نہیں تو بغیر دودھ کی، چینی والی نہیں تو بغیر چینی کی، سبز چائے، مصالحہ چائے، کشمیری چائے، اور کچھ نہیں توٹھنڈی چائے، پسند تو ہر کسی کو ہی ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پیئے جانے والے مشروب کا اعزاز رکھنے والی ’’چائے‘‘ کی پتیاں طرح طرح کے عمل سے گزاری جاتی ہیں، جس کے باعث مختلف اقسام کی پتی وجود میں آتی ہیں۔
کالی چائے
عملِ کسید سے گزار کر بنائی جانے والی یہ چائے ہمارے ملک میں دودھ ملا کربنائی جاتی ہے اور چینی یا گڑ ڈال کر پی جاتی ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں میں اسے دودھ کے بغیر بھی پیا جاتا ہے اور دودھ کی جگہ ’’وایٹنر‘‘ بھی ڈالا جاتا ہے۔ اس چائے کا رنگ، ذائقہ اور خوشبو، باقی تمام اقسام کی چائے سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ چین میں اسے ’’سرخ چائے‘‘ کہتے ہیں۔ سبز چائے کے برعکس اس کی تازگی کئی سالوں تک برقرار رہ سکتی ہے۔ چین، تائیوان، انڈیا، کوریا، نیپال، سری لنکا اور ترکی اس چائے کے بڑے پیداواری ممالک ہیں۔ ہمارے ملک کے تمام علاقوں بالخصوص سندھ اور پنجاب کے علاقوں میں یہ بہت پسند کی جاتی ہے۔ اور پانی کے علاوہ صرف دودھ میں پکاکر دودھ پتی کے نام سے بھی نوش کی جاتی ہے۔
سبز چائے
وہ علاقے جہاں ہلکے پھلکے مشروبات کو پسند کیا جاتا ہے، گرین ٹی کا استعمال زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ چائے کی وہ پتیاں ہو تی ہیں جن کی تازگی برقرار رکھی جاتی ہے اورانہیں عملِ تکسید سے بھی نہیں گزارا جاتا۔ اسی لئے اس پتی سے تیار ہونے والا مشروب فرحت اور تسکین میں باقی تمام چائے سے برتر کہلایا جاتا ہے۔ ذائقے کے علاوہ اس کے انسانی جسم کے لیے کسیر فوائد بھی ثابت ہیں۔ سبز چائے زیادہ سے زیادہ ایک سال کی مدت تک استعمال کی جاسکتی ہے، اس کے بعد اس کا رنگ اور ذائقہ خراب ہوجاتا ہے۔ ترکی، روس ، ایران اور افغانستان کے علاوہ پاکستان کے خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور شمالی علاقہ جات میں سبز چائے کا استعمال بکثرت ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اسے ’’قہوہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور ہلکے پیلے رنگ سے لے کر گہرے سبز رنگ تک مختلف اقسام کے قہوے پیئے جاتے ہیں۔ عام طور پر گھر آئے مہمانوں کی بھی اسی مشروب سے تواضع کی جاتی ہے۔انسانوں کی صحت یابی کیلئے کوشاں ماہرین کا کہنا ہے کہ سبز چائے کو باقاعدگی سے استعمال کرنے سے انسان بہت ساری بیماریوں سے بچ سکتا ہے (ایڈس نہیں) اور اگر رات کے کھانے کے بعد سبز چائے پی جائے تو اِس سے کولیسٹرول نہیں بڑھتا، پیٹ کی چربی گْھل جاتی ہے اور انسان موٹاپے جیسی بدنما بیماری سے محفوظ رہتا ہے۔ دماغ کھپانے (تحقیق) کے مطابق سبز چائے کولیسٹرول کی سطح کو 25% گھٹا دیتی ہے، اِس لئے جو انسان اگر وہ امراض قلب میں مبتلا ہوں تو جتنا زیادہ ہوسکے سبز چائے پیتے رہیں تاکہ اپنے کولیسٹرول کو کم کیا جاسکے مزید یہ کہ بلڈ پریشر میں مبتلا خواتین و حضرات کیلئے بھی سبز چائے بہت مفید ہے جس سے وہ دل کے دورے سے بآسانی بچ سکتے ہیں (مبارک ہو۔ مگر پچاس کروڑ ڈالر کی لاٹری نکل پڑی تو؟) تحقیق کاروں نے بتایا سبز چائے میں ایسے Anti oxidants پائے جاتے ہیں جن میں وٹامن C کی مقدار سو فیصد اور وٹامن E پچیس فیصد پایا جاتا ہے جو ہمارے جسم کو سرطان، امراض قلب اور دیگر خطرناک بیماریوں سے بچاسکتی ہے۔ آئیے ہم اور آپ ابھی اسی وقت سبز چائے پینا شروع کردیں اور گھر آنے والے مہمانوں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے انہیں بھی سبز چائے پیش کریں۔
پھولوں کی چائے
انگریزی میں اسے بلومنگ ٹی کہتے ہیں۔ اس کی پتی خشک گولیوں کی شکل میں ہوتی ہے۔ اس پتی کو بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ چائے کی تازہ پتیوں کے درمیان کوئی پھول رکھ کر اسے گولی کی شکل دے کر خشک کرلیا جاتا ہے۔ چائے بنانے کے لیے گرم پانی میں اس گولی کو ڈالا جاتا ہے جس سے وہ کھل کر پانی مین تیرتا پھول نظر ا?تا ہے۔ عموماً اسے کانچ کے شفاف پیالے میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ ذائقے کے ساتھ خوبصورتی بھی دل کو بھائے۔ اس پتی میں چنبیلی، للی، گلِ دائودی،جاسی اور گلِ جاوید سمیت دیگرکئی پھولوں والی پتیاں بازار میں دستیاب ہیں۔
کشمیری چائے
جنت نظیر ، کشمیر کے کھانے الگ اور ان کی روایات کے امین ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی چائے پورے پاکستان میں مشہور اور پسند کی جائی ہے۔ کشمیر میں اسے پکانے کے لیے مخصوص برتن ’’سماوار‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص سبز پتوں سے بنے قہوہ میں دودھ، الائچی اور بیکنگ سوڈا ڈال کر گلابی چائے بنائی جاتی ہے اور پینے سے قبل کْٹے ہوئے خشک میوہ جات کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اسے کشمیر میں تو نمک ڈال کر پیا جاتا ہے اور اسی لیے ’’نون چائے‘‘ بھی کہا جاتا ہے، لیکن ملک کے دیگر حصوں میں اسے میٹھے مشروب کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ سردیوں میں شادی کے کھانوں کے ساتھ کشمیری
چائے نہ ہو تو کچھ تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ افغانستان میں اسے ’’شور چائے‘‘ کہا جاتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭