سرفروش

عباس ثاقب
میں نے کوارٹر میں داخل ہونے کے بعد بھی فوراً مرکزی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش نہیںکی۔ میں جانتا تھا کہ آج رات اس گھر میں خاتونِ خانہ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس کے کھلاڑی مجھے خوابِ غفلت میں محو نہیں ملیں گے، اور میری ذرا سی بے احتیاطی میرے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دے گی۔ چنانچہ میں نے کسی بھی جلد بازی سے گریز کا مکمل تہیہ کر رکھا تھا۔
میں گزشتہ مرتبہ ہی کوارٹر کا بغور جائزہ لے چکا تھا۔ میں بلا توقف دبے پاؤں چلتا ہوا شیڈ میں کھڑی ہوئی سچن کی گاڑی کے پاس پہنچا اور اس کے عقب میں موجود ایک پرانے سے صوفے پر جا بیٹھا۔ اب کوارٹر کے باہر سے تو کیا، اندر احاطے کی بتیاں روشن ہونے پر بھی مجھے پہلی نظر میں نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ صوفہ خستہ حال ہونے کے باوجود خاصا آرام دہ تھا۔ البتہ سردی سے بچنے کا میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ لہٰذا اگلے تین گھنٹے تک میں اپنی قوتِ برداشت آزماتا رہا۔
اس طویل انتظار کے بعد بالآخر میں اپنے ٹھکانے سے نکلا اور کوارٹر کی عمارت کے مرکزی دروازے کی طرف بڑھا۔ سچن کی چابیوں کے گچھے میں موجود تمام چابیوں کی بہترین ڈپلیکیٹس پاس ہونے کی وجہ سے مجھے اندر گھسنے کی کوئی فکر نہیں تھی۔ تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے میں کچھ ہی دیر میں سچن اور آرتی کی خواب گاہ کے دروازہ پر پہنچ چکا تھا۔
میں نے کان لگاکر اندر کی سن گن لینے کی کوشش کی۔ مجھے کوئی آواز سنائی نہ دی۔ میں نے حتی الامکان احتیاط سے چابی قفل میں ڈالی اور پھر آہستہ آہستہ گھمانے لگا۔ بغیر کسی مزاحمت چابی پوری طرح گھوم گئی۔ میں نے دروازے کا لٹو پکڑ کر بہت دھیرے سے گھمایا اور دروازے کو بس اتنا دھکیلا کہ اندر جھانکنے کے لیے چھوٹی سی جھری بن جائے۔
گزشتہ بار اس خواب گاہ میں دھیمی روشنی نے میری نظروں کا امتحان لیا تھا۔ لیکن اس وقت خواب گاہ پوری طرح روشن تھی۔ میں نے ایک لمحے میں وہاں کا جائزہ لے لیا۔ میں نے یہ دیکھ کر اطمینان کا گہرا سانس لیا کہ مسہری پر لحاف میں لپٹے دونوں افراد بظاہر گہری نیند سو رہے تھے۔ مسہری کے پاس رکھی ایک میز پر میری خریدی ہوئی وسکی کی بوتل میں بس ایک تہائی کے قریب شراب بچی تھی۔ البتہ اس کے ساتھ رکھی پلیٹوں میں مرغ کی چند ہڈیوں کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچا تھا۔ مجھے واضح طور پر دکھائی نہیں دیا، لیکن ساتھ ہی موجود پلیٹوں میں غالباً آلو کے تلے ہوئے قتلے اور دیگر نمکین لوازم رہے ہوں گے۔ سچن نے واقعی ہٹلر مزاج بیوی سے عارضی نجات کا جشن منانے کا بھرپور اہتمام کر رکھا تھا۔
میں نے دروازے میں داخلے کے لائق جگہ بنائی اور اسے بے آواز بند کر کے دبے پاؤں اپنی پسندیدہ کمیں گاہ یعنی بھاری پردے کی طرف بڑھا۔ اس دوران میں میری نظریں مسہری پر محوِ خواب جوڑے پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ دونوں ایک ہی لحاف میں تھے۔ سچن کا منہ لحاف سے باہر تھا، جبکہ اس کے پہلو میں دراز کامنی پوری ملفوف دکھائی دی۔
پردے کے پیچھے پہنچ کر میں نے اطمینان کا سانس لیا اور پھر اپنی جیب سے چرمی سگریٹ کیس کی شکل کا کیمرا نکالا۔ میرا دل ہیجان اور مسرت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ ساتھ تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ بالآخرمیرے اس خفیہ جاسوسی آلے کو آزماکر اس کی کارکردگی جانچنے کا وقت آگیا۔ میں نے اسے استعمال کرنے کا سادہ سا طریقہ ذہن میں دہرایا اور تمام احتیاطی تدابیر بھی ذہن میں تازہ کیں۔
میں نے پردے سے باہر نکل کر سب سے پہلے نیند میں کھوئے سچن کی ایسے زاویے سے تصویر اتاری کہ پس منظر میں موجود عورت اور میز پر سجی شراب کی بوتل اور لوازم واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے۔ اس کے بعد میں نے مختلف انداز میں مزید کئی تصویریں بنائیں۔ اس کے بعد میں ایک دوسرے پردے کی آڑ میں جا چھپا۔ مجھے اب اس عورت کے لحاف سے باہر آنے یا کم از کم چہرہ کھلنے کا انتظار تھا، تاکہ سچن کے پہلو میں اس کی موجودگی کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر سکوں۔
لگ بھگ بیس منٹ بعد اس عورت کے جسم میں جنبش ہوئی اور اس نے سچن کی طرف کروٹ بدلی۔ محض چند لمحوں کے لیے لحاف اٹھا اور پھر اس نے نیند ہی میں خود کار انداز میں خود کو لپیٹ لیا۔ لیکن یہ وقفہ اس کی بے لباسی کا راز کھولنے کے لیے بہت کافی تھا۔ میرا دل ایک بار زور سے دھڑکا۔ مجھے اپنی کاوش بھرپور انداز میں بارآور ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔
میں پوری یکسوئی سے مزید پیش رفت کا انتظار کر رہا تھا، جب کہ میرا کیمرا بھی ’’کارآمد‘‘ تصویریں اتارنے کے لیے پوری طرح تیار تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment