عمران خان
ٹیکس چوری میں ملوث کمپنیوں کو بھاری رشوت کے عوض ریلیف فراہم کرنے کے الزامات کے تحت کسٹم کے کلکٹر ایڈجیوڈی کیشن آصف مرغوب صدیقی کے خلاف تحقیقات میں ایف آئی اے نے آصف مرغوب صدیقی اور ان کے اہل خانہ کے بیرون ملک سفری دوروں کے علاوہ اہم ریکارڈ حاصل کرلیا۔ کسٹم افسر آصف مرغوب کے خلاف رشوت لینے کے علاوہ آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کے الزامات کے تحت بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں، جس کی تفتیش میں حاصل کردہ ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ آصف مرغوب صدیقی، ان کی اہلیہ اور بیٹی نے گزشتہ 10 برسوں میں بیرون ملک کے 100 سفر کئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایف آئی اے کی جانب سے کلکٹر کسٹم ایڈ جیوری کیشن کی جانب سے ٹیکس چوری میں ملوث چینی کمپنی کو ریلیف دینے کیلئے جاری کردہ آرڈر ان اوریجنل ’’او این او‘‘ یعنی فیصلے کو بھی عدالت میں چیلنج کردیا ہے، جس پر کارروائی جاری ہے۔ ’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے نے پاکستان کسٹم کے 20 ویں گریڈ کے افسر آصف مرغوب صدیقی کے خلاف مالی بدعنوانیوں، آمدنی سے کہیں زیادہ اثاثے بنانے اور اختیارات سے تجاوز کرنے کے حوالے سے تحقیقات شروع کردیں ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ ایک برس میں یہ کسٹم کے دوسرے کلکٹر ہیں جن کے خلاف آمدنی سے زیادہ اثے بنانے پر ایف آئی اے کی جانب سے کارروائی کی جا رہی ہے اس سے قبل کلکٹر پورٹ قاسم ایکسپورٹ مجتبیٰ میمن کے خلاف انکوائری میں شواہد سامنے آنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تاہم ان کی گرفتاری ممکن نہیں ہوسکی تھی بلکہ دوران تحقیقات ہی انہیں پورٹ قاسم پر پرکشش پوسٹنگ مل گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق آصف مرغوب صدیقی کے خلاف تحقیقات کیلئے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سے منظوری حاصل کی گئی ہے ذرائع کے بقول کلکٹر کسٹم آصف مرغوب صدیقی کے خلاف سورس رپورٹ کی تصدیق کے بعد ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل سندھ نے باقاعدہ انکوائری درج کرنے کیلئے فروری کے آغاز میںڈی جی ایف آئی اے سے منظوری لینے کیلئے رپورٹ اسلام آباد ارسال کی تھی۔ ابتدائی رپورٹ میں سورس رپورٹ کی بنیاد پر ایڈجیوری کیشن کے سربراہ کی حیثیت سے آصف مرغوب صدیقی پرکروڑوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث کمپنیوں کو بھاری مراعات کے عوض ریلیف دینے کا الزامات پر تحقیقات کرنے کی اجازت لی گئی۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول کلکٹر کسٹم آمدنی سے کہیں زیادہ اثاثوں کے مالک ہیں جبکہ انکوائری میں ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی شامل تفتیش ہوں گے۔ کیونکہ زیادہ تر اثاثے خاندان کے دیگر افراد کے نام رکھے گئے ہیں۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق محکمہ کسٹم میں ایڈجیوی کیشن ایک انتہائی اہم شعبہ ہے جس میں ان ٹیکس چور کمپنیوں کے معاملات تحقیقات کے لئے بھجوائے جاتے ہیں جو دھوکہ دہی کے ذریعے حکومتی خزانے کو نقصان پہنچانے اور اسمگلنگ میں ملوث ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کسٹم افسران کے خلاف بھی ایڈجیوری کیشن میں ہی رپورٹ بھجوائی جاتی ہے جو کہ کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں، جہاں پر کلکٹر ایڈجیوری کیشن ثبوت اور شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹیکس چورکمپنیوں سے ٹیکس وصولی کے علاوہ ان کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کمپنیوں پر قابل ادائیگی ٹیکس لاگو کرتے ہیں۔ ذرائع کے بقول آصف مرغوب صدیقی پر الزاما ت ہیں کہ انہوں نے اس شعبہ میں اپنے اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کثیر مراعات حاصل کیں اور ٹیکس چور کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا۔ ذرائع کے بقول تازہ واقعے میں سورس رپورٹ اس وقت ایف آئی اے کو ملی جب یہ معلوم ہو اکہ ایف آئی اے کی کارروائی کی زد میں آنے والی ایک چینی ٹیکس چور کمپنی سے بھی ایڈجیوری کیشن میں لین دین کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2017ء کے آخر میں ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل نے خفیہ اطلاع ملنے پر چینی کمپنی میسرز بی جی پی (پاکستان) کی جانب سے کراچی ایئرپورٹ سے بھاری مشینری چارٹرڈ کارگو جہاز کے ذریعے بیرون ملک لے جانے کی کوشش ناکام بنادی تھی اور تمام مشینری ضبط کرکے انکوائری شروع کی گئی تھی، جس میں متعلقہ اداروں سے دستاویزات طلب کی گئی تھیں۔ ایف آئی اے نے ایک ماہ کی تفتیش کے بعد غیرملکی کمپنی کو 67 کروڑ روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث قرار دے کر ان کے خلاف نومبر 2017ء کے آخر میں مقدمہ درج کیا تھا۔ جبکہ کمپنی کے کنٹری منیجر زونگ زونگمن اور ان کے نائب لی چانگ ہانگ کو گرفتار کرلیا تھا۔ چین سے تعلق رکھنے والے آئل اینڈ گیس سروے کمپنی میسرز بی جی پی (پاکستان) کی بھاری مشینری کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکس ادائیگی کے بغیر چارٹر جہاز کے ذریعے بیرون ملک لے جانے کی کوشش ناکام بنانے کے بعد ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کی جانب سے تحقیقات مکمل ہونے کے بعد چین کی کمپنی میسرز بی جی پی اور اس کمپنی کے کلیئرنگ ایجنٹ کمپنی میسرز آئی ایم ٹی کو بھی مقدمہ میں شامل کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں اسی مقدمہ میں ایئر پورٹ کے ایئر فریٹ یونٹ پر تعینات کسٹمز کے دو اپریزنگ افسران کو بھی شامل تفتیش کیا گیا، کیونکہ انہوں نے جعلی دستاویزات پر سامان کلیئر کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔ بعد ازاں ایف آئی اے حکام کی جانب سے کمپنی کے اعلیٰ افسران کی گرفتاری کے بعد میسرز بی جی پی (پاکستان) نے اپنے ذمے واجب الادا 67 کروڑ 30 لاکھ روپے متعلقہ کسٹمز کلیکٹوریٹس میں ادا کردیئے تھے اور اس ریکوری کو ایف آئی اے کے ذریعے ہونے والی تاریخی ریکوری قرار دیا گیا تھا۔ اسی کیس میں یہ حلف نامہ بھی دیا گیا تھا کہ اگر کمپنی کے ذمے مزید واجبات مستقبل میں سامنے آئیں گے تو انہیں بھی فوری طور پر ادا کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اس معاملے میں کسٹمز ایڈجیوری کیشن کا کردار مشکوک طور ہوگیا ہے۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ آصف مرغوب صدیقی کے حوالے سے ایف آئی اے کو موصول ہونے والی سورس رپورٹ میں آگاہ کیا کہ ان کے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی میں کروڑوں روپے مالیت کے دو بنگلے ہیں، وہ دوہری شہریت کے بھی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بدعنوان کمپنیوں کے حق میں فیصلے دیئے، جس پر تحقیقات میں ریونیو آفس سے ریکارڈ طلب کیا گیا۔ دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ڈیفنس میں ان کی اہلیہ اور بیٹی کے نام پر دو بنگلوں کا ریکارڈ سامنے آیا ہے۔ اس کے علاوہ امیگریشن سے حاصل کردہ سفری ریکارڈ سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے مجموعی طور پر 2017 سے 2018 تک بیرون ملک کے 100 سفر بھی کئے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق کلیکٹر کسٹمز کی جانب سے ٹیکس چوری میں ملوث چینی کمپنی کیلئے جاری کردہ فیصلے کو بھی نہ صرف عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے بلکہ اس ضمن میں ایف آئی اے حکام کی نے چیئرمین ایف بی آر آفس کو بھی لیٹر ارسال کیا ہے۔ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کرائم اسلام آباد روبن یامین کی جانب سے ایف بی آر کے چیئرمین آفس کو لکھے گئے لیٹر میں کہا گیا ہے کہ کلیکٹر کسٹمز کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کیلئے ایف آئی اے کے فیلڈ یونٹ نے سفارشات دی تھیں، جنہیں ایف آئی اے کے لیگل افسر نے منظور کیا ہے۔ اس لئے آگاہ کیا جاتا ہے کہ فیلڈ اسٹاف کو کسٹم ٹربیونل میں رپورٹ پیش کرنے دی جائے۔ رپورٹ میں یہ بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ ایف آئی اے کے مقدمہ الزام نمبر33/2017 میں ٹیکس چوری اور فراڈ کے کیس میں نامزد چینی کمپنی نے اپنے حق میں فیصلہ لینے کیلئے 2 کروڑ روپے سے زائد کی رقم بطور رشوت ادا کی۔ تحقیقات میں حبیب بینک میں موجود پانچ اکائونٹس کا ڈیٹا بھی حاصل کرلیا گیا ہے ۔
اس ضمن میں جب ’’امت‘‘ نے کلکٹر آصف مرغوب صدیقی سے رابطہ کر کے سوال کیا کہ وہ تحقیقات کے بارے میں کیا موقف رکھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ سوال انہی سے پوچھیں جو تحقیقات کر رہے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭