امت رپورٹ
نیب کیسز میں ملوث تمام وزرا کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان کے استعفے کے بعد پرویز خٹک پر بھی دبائو بڑھ گیا ہے۔ جن کے خلاف نیب نے کرپشن ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے پر قاف لیگ کے رہنما پرویز الٰہی کے علاوہ علیم خان، زلفی بخاری اور جہانگیر ترین سمیت دیگر کئی پی ٹی آئی رہنمائوں اور اراکین اسمبلی کیلئے بھی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی علیم خان جو آف شور کمپنیوں اور ہائوسنگ اسکیموں میں گھپلوں اور اپنی آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزامات کے تحت نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں، اس وقت پنجاب کی صوبائی حکومت میں سینئر وزیر کا درجہ رکھتے ہیں اور عملاً پنجاب کی حکومت چلارہے ہیں۔ دوسرے نیب زدہ وزیر سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختون پرویز خٹک ہیں، جن پر پشاور میٹرو کی تعمیر میں بے قاعدگیوں کے الزامات کے علاوہ مالم جبہ میں صوبائی محکمہ جنگلات کی 275 ایکڑ زمین کو ناجائز طور پر نجی شعبے کو 33 سال کی لیز پر دینے کا الزام ہے۔ ان کے علاوہ عمران خان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری بھی آج کل نیب کے چکر لگا رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہی کے خلاف بھی نیب میں کارروائی جاری ہے۔ اسلام آباد میں موجود ذرائع کے مطابق جب یہ شک تھا کہ نندی پور پروجیکٹ میں بابر اعوان ملوث ہوسکتے ہیں تو انہیں کیوں مشیر بنایا گیا۔ پرویز خٹک کو کیوں وزیر دفاع بنایا گیا اور کس لیے علیم خان کو پنجاب کا سینئر وزیر بنایا گیا؟ پرویز الہی کو کیوں اسپیکر پنجاب اسمبلی بنایا گیا؟ یہ تمام عمل عمران خان کے اپنے دعووں کے برعکس ہیں۔ تاہم ذرائع کے بقول ڈاکٹر بابر اعوان کے استعفے کے بعد نیب کیسز میں ملوث وزرا کے علاوہ پی ٹی آئی کے منتخب بعض اراکین پارلیمنٹ بھی مستعفی ہوں گے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو عمران خان کے دعووں کی نفی ہوگی اور یہ کہ پی ٹی آئی حکومت اس حوالے سے شدید تنقید کی زد میں بھی آ سکتی ہے۔ چونکہ بابر اعوان نہ تو سینیٹ کے رکن تھے اور نہ ہی قومی اسمبلی کے رکن تھے، اس لئے ان سے استعفیٰ لینا آسان تھا۔ لیکن علیم خان اور پرویز خٹک سے کس طرح استعفیٰ لیا جائے گا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، یہ دیکھا جانا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بلوچستان کے گورنر کے لیے ڈاکٹر امیر محمد خان جوگیزئی کا نام پیش کرکے اسی لیے واپس لیا کہ ڈاکٹر امیر محمد جوگیزئی کے خلاف نیب کی جانب سے جلد ریفرنس دائر کیے جانے کا امکان ہے۔ ان کے خلاف کڈنی سینٹر کوئٹہ کے لیے طبی آلات کی خریداری اور کڈنی سینٹر کے فنڈز کے اجرا میں ہیرا پھیری سے قومی خزانے کو 6 کروڑ 10 لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ قومی احتساب بیورو نے 2015ء میں کوئٹہ کڈنی سینٹر کے اس وقت کے سربراہ ڈاکٹر امیر جوگیزئی کے خلاف انکوائری شروع کی تھی۔ نیب ذرائع کے مطابق ڈاکٹر امیر محمد جوگیزئی کے خلاف تحقیقات آخری مراحل میں ہیں اور ان کے خلاف جلد ریفرنس دائر کیے جانے کا امکان ہے۔ ڈاکٹر امیر محمد خان جوگیزئی کے خلاف انکوائری کی منظوری اس وقت کے چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کی زیرصدارت ایگزیکٹو بورڈ نے دی تھی۔ اس لیے تاحال بلوچستان کے کسی نئے گورنر کے نام کا اعلان نہیں ہوسکا ہے اور محمود خان اچکزئی کے بھائی اب تک گورنر بلوچستان ہیں۔
یاد رہے کہ علیم خان کا نام پاناما پیپرز میں آیا تھا کہ ان کی بھی آف شور کمپنی ہے، جس پر نیب نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔ ان کے اپنے اثاثوں کے علاوہ ان کی اہلیہ، قریبی رشتہ دار اور دوستوں کے اثاثوں کی جانچ بھی کی جارہی ہے۔ ان کی کمپنی ہیکسام انوسٹمنٹ اوورسیز لیمٹیڈکے اکلوتے مالک علیم خان ہی ہیں۔ لیکن علیم خان کا دعویٰ ہے کہ پاناما پیپرز میںان کی کمپنی کا نام نہیں ہے۔ علیم خان کی لاہور میں قائم پارک ویو ہائوسنگ سوسائٹی کی انکوائری بھی نیب میں چل رہی ہے۔ دوسری جانب بابر اعوان کے نندی پور کیس میں پھنسنے کے بعد پرویز خٹک کی باری آگئی ہے، جو 2013ء سے 2018ء تک پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں خیبرپختون کے وزیرِ اعلیٰ رہے۔ ان کے خلاف اس دوران مالم جبہ اور ہیلی کاپٹر کے حوالے سے کیسز کے سلسلے میں نیب کی تحقیقات جاری ہیں۔ علاوہ ازیں سابق وزیرِاعلیٰ کے خلاف پشاور کے بی آر ٹی پروجیکٹ میں بھی پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر نیب نے کرپشن کی تحقیقات شروع کی ہوئی ہیں۔ پرویز خٹک کچھ کیسز میں نیب کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔ جبکہ زلفی بخاری نے تو نیب کے سامنے اپنی 6 آف شور کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کی تھی، جس کے بعد سے وہ کئی بار نیب کے سامنے پیش ہوئے۔ ہیلی کاپٹر کے ناجائز استعمال کے ضمن میں خود عمران خان نیب کی تفتیشی کمیٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔ پاناما پیپرز کے مطابق پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین کے ہمپشائر (برطانیہ) میں فارم ہاؤس ہیں۔ پی ٹی آئی کے سابق سیکریٹری جنرل اسی علاقے میں ہیڈلے ہاؤس کے مالک ہیں۔ انہوں نے یہ گھر شینی ویو لمیٹڈ نامی آف شور کمپنی کے ذریعے 2005ء میں 10 لاکھ 20 ہزار اسٹرلنگ پاؤنڈ (15 کروڑ 71 لاکھ روپے) میں خریدا۔ پی ٹی آئی کے دوسرے رہنما علیم خان بھی سینٹرل لندن میں 3 جائیدادوں کے مالک ہیں، جس میں پارک ویسٹ میں 5 ویں فلور پر ایک کمرے کا فلیٹ ہے، جو جولائی 2007ء میں 3 لاکھ پاؤنڈ (4 کروڑ 62 لاکھ روپے) میں خریدا گیا۔ بعدازاں ویسٹ پارک کے دو فلیٹس جون اور اگست 2017ء میں تقریباً 5-5 لاکھ پاؤنڈ میں فروخت کیے گئے۔ علیم خان برطانیہ میں ماربل اریچ اپارٹمنٹ میں ایک اور فلیٹ کے مالک ہیں، جو انہوں نے آف شور کمپنی کے ذریعے اگست 2002ء میں 2 لاکھ 20 ہزار پاؤنڈ (3 کروڑ 38 لاکھ روپے) میں خریدا۔ جبکہ اسی اپارٹمنٹ میں دو فلیٹس فروخت کئے۔ ایک فلیٹ گزشتہ سال 4 لاکھ 95 ہزار پاؤنڈ (7 کروڑ 62 لاکھ روپے) میں اور دوسرا فلیٹ 4 لاکھ 15 ہزار پاؤنڈ (6 کروڑ 39 لاکھ روپے) میں فروخت کیا۔ علیم خان کی تیسری آف شور پراپرٹی محض چھ ماہ قبل 4 لاکھ 5 ہزار پاؤنڈ (6 کروڑ 23 لاکھ روپے) میں خریدی گئی۔ پی ٹی آئی کے ہمدرد زلفی بخاری بھی سینٹرل لندن میں دو مہنگے ترین آف شور جائیداد کے مالک ہیں۔ اینیس مور گارڈن میں ان کے فلیٹس کی مالیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک فلیٹ جولائی 2008ء میں 9 لاکھ 49 ہزار 950 پاؤنڈ (14 کروڑ 63 لاکھ 70 ہزار روپے) میں فروخت ہوا تھا
٭٭٭٭٭