نظام دکن کے مسروقہ نوادرات کی قیمت350 کروڑ روپے ہے

سدھارتھ شری واستو
بھارت میں ساتویں نظام دکن میر عثمان علی خاںکے چرائے گئے نایاب نوادرات کی قیمت 350 کروڑ پاکستانی روپے ہے۔ موٹر سائیکل سوار دو چوروں کی اس فلمی اسٹائل کارروائی نے بھارتی سیکورٹی اداروں کی اہلیت پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔ ادھر بھارت کے محکمہ نوادرات اور پولیس کی 12 ٹیموں نے ساتویں نظام دکن میر عثمان علی خاں/ آصف جاہ ہفتم کے زیر استعمال نادر برتنوں اور ہیروں سے مرصع ہار کی چوری کی واردات کی تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ ایک اعلیٰ تفتیشی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ چوروں نے کسی فلمی انداز میں یہ کارروائی کی ہے، جس کیلئے چوروں نے پہلے پورے میوزیم سے واقفیت حاصل کی ہے اور وینٹی لیشن ڈکٹ کی مدد سے اس میوزیم میں گھس کر ’’چائے کا طلائی سیٹ‘‘، ’’ہیروں اور جواہرات سے مرصع ایک طلائی ناشتہ دان‘‘ اور ایک عدد ’’ہیرے کا ہار‘‘ بآسانی میوزیم سے حاصل کر کے ایک موٹر سائیکل پر سوار ہوکر فرار ہوئے ہیں۔ اس دوران میوزیم کا سیکورٹی عملی بالکل بے خبر رہا، لیکن مقامی تفتیشی حکام کا دعویٰ ہے کہ اس کارروائی میں سیکورٹی حکام میں سے بھی کوئی فرد چوروں کے ساتھ ملا ہوا ہو سکتا ہے۔ تفتیشی حکام کے مطابق میوزیم کو شام کو مکمل طور پر مقفل کردیا جاتا ہے اور اس کے اندر کیمرے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کیمروں کی ویڈیو ریکارڈنگز کو ایک فرد کمپیوٹر پر دیکھتا بھی ہے۔ لیکن اس رات جب نظام د کن میوزیم میں چور گھسے تو یہ سیکورٹی عملہ اس وقت سو رہا تھا یا غفلت کا شکار تھا۔ اس سلسلہ میں کئی سیکورٹی افسران کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خود کو پولیس کی حراست میں سمجھیں اور گھر سے کسی دوسری جگہ نہ جائیں۔ جبکہ وہ شہر سے باہر بھی نہیں جا سکتے۔ مقامی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کا دعویٰ ہے کہ اس کارروائی میں میر نظام ٹرسٹ سمیت سیکورٹی کے دیگر عناصر شامل ہوسکتے ہیں اور یہ عالمی چوروں کی نسبت اندرونی مخبروں کی کارروائی لگتی ہے، جس کا جلد سراغ لگا لیا جائے گا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس میوزیم میں میرمحبوب علی خان سے لے کر میر عثمان علی خاں کے ادوار تک کی انتہائی قیمتی اور نادر و نایاب اشیا رکھی گئی ہیں جن کی تعداد 450 ہے۔ ان میں قیمتی بندوقیں، دیگر ہتھیار، طلائی اور آہنی اشیا، زیورات و ملبوسات اور تاج سمیت دیگر اشیا شامل ہیں۔ بھارتی لکھاری ایس کے حسینی نے بتایا ہے کہ عالمی آکشن مارکیٹ میں پانچ برس قبل ان نوادرات کی قیمت 55 کروڑ لگائی جا چکی تھی، لیکن نظام حیدر آباد دکن/ میوزیم کی انتظامیہ نے ان کو 200 کروڑ (لگ بھگ ساڑھے 3 ارب پاکستانی روپے) میں بھی بیچنے سے معذرت کرلی تھی، کیونکہ نظام حیدر آباد دکن میر عثمان علی خاں کے زیر استعمال یہ برتن نظام فیملی اور حیدر آباد دکن کی قدیم تہذیب و ثقافت کا نمونہ ہیں اورکسی قیمت پر فروخت نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں بتایا گیا ہے کہ لندن سے تعلق رکھنے والے ایک شہری نے اپنی شناخت چھپاتے ہوئے نظام حیدر آباد دکن فیملی کو آفر کی تھی کہ وہ اگر صرف چائے دان اور توشہ دان ہی کو فروخت کرنا چاہیں تو ان کی قیمت 120 کروڑ روپے ادا کی جا سکتی ہے، لیکن نظام حیدر آباد دکن فیملی نے اس پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا تھا۔ رواں ہفتے نظام حیدر آباد دکن میوزیم میں ہونے والی چوری میں تین نادرو نایاب اشیا غائب ہوچکی ہیں، جن میں طلائی توشہ دان اور طلائی چائے دان اور ہیروں کا ایک انتہائی قیمتی ہار شامل ہے۔ مسروقہ سامان میں شامل ایک طلائی توشہ دان کا اپنا وزن دو کلو ڈیڑھ سو گرام ہے، جس پر ہیرے، زمرد اور یاقوت سمیت نیلم جیسے قیمتی اور اصلی پتھر جڑے ہوئے ہیں۔ حیدرآباد دکن کے ایک ماہر آثار قدیمہ کا ماننا ہے کہ طلائی توشہ دان کو نظام دکن ششم نے 1900 میں حیدرآباد دکن کے ماہر کاریگروں سے منہ مانگی قیمت پر بنوایا تھا اور یہ نظام فیملی کے 1937 تک زیر استعمال تھا۔ جس کے بعد میر عثمان علی خاں کو یہ توشہ دان گفٹ کر دیا گیا تھا، جو اس کو گاہے بہ گاہے استعمال کرتے تھے اور ان کی وفات اور سقوط حیدر آباد کے بعد یہ نظام حیدرآباد دکن کے خاندان کی ملکیت میں تھا، جس کو پرانی حویلی کے میوزیم میں رکھا گیا تھا۔ حیدر آباد دکن سے ایس کے حسینی نے بتایا ہے کہ چوری کی واردات نظام حیدر آباد دکن کی قدیم حویلی میں ایستادہ میوزیم میں واقع ہوئی ہے۔ ایڈیشنل کرائم اے ڈی آئی جی شیکھا گوئیل نے گزشتہ روز نظام حیدر آباد دکن میوزیم کا دورہ کیا اور فارنسک ماہرین سمیت تفتیشی ٹیموں سے بریفنگ لی، جن کو 12 ٹیموں کے سربراہان نے بتایا کہ چوروں کا سراغ جلد لگا لیا جائے گا، کیونکہ کارروائی کسی بڑے عالمی گینگ کا حصہ ہوسکتی ہے لیکن اس میں مقامی شاطر چوروں کا استعمال کیا گیا ہے، جو بظاہر مہرے ہیں۔ اس سلسلہ میں حکام نے اس وارادت سے متعلق اطلاع دینے والے فرد یا افراد کیلئے ابتدائی طور پر 25 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے، جبکہ نظام حیدر آباد دکن فیملی نے بھی اس حوالہ سے کسی بریک تھرو پر پانچ لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔ پرانے شہر کے میر چوک پولیس اسٹیشن سے تعلق رکھنے والے ایک آفیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کارروائی میں ملوث دو افراد کی موٹر سائیکل پر چوری کی واردات اور چوری کے بعد کی جانے والی نقل و حرکت کو کئی علاقوں میں ٹریس کیا جاچکا ہے لیکن ابھی اس ضمن میں اس پیشرفت کو واضح نہیں کیا جاسکا ہے۔ کیومکہ یہ مجرمان کی گرفتاری کے حوالہ سے ضرر رساں ہوسکتا ہے۔ حیدر آباد کے سینئر پولیس آفیسر اور آئی جی انجانی کمار نے پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے حوالہ سے بتایا ہے کہ دو چور ایک موٹر سائیکل پر میوزیم کی پرانی حویلی کے عقب سے آئے اور انہوں نے ماہرانہ انداز میں رسیوں اور آہنی کمند کی مدد سے میوزیم کی بیرونی دیوار سے اندر گھسے۔ پھر وہ روشندان سے رسیوں کی مدد سے بیس فٹ کی اونچائی سے زمین پر اتر کر پرانی حویلی کے اس میوزیم میں داخل ہوئے اور ایک آہنی راڈ کی مدد سے اس میوزیم کے شیشے کے باکسز میں رکھی جانے والی اپنی من پسند اشیا کو شیشہ توڑ کر نکالا اور ایک تھیلے میں ڈال کر اسی ترکیب سے باہر آگئے اور قیمتی نوادرات کو لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment