شہباز نے سرکاری تقریبات میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا

امت رپورٹ
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے صدر شہباز شریف نے کسی بھی قسم کی سرکاری تقریبات میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نون لیگ کے معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ فیصلہ شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی اور تاحیات پارٹی قائد نواز شریف کی ہدایت پر کیا ہے۔ لہٰذا پی ٹی آئی کے نو منتخب صدر عارف علوی کی تقریب حلف برداری میں بھی وہ شریک نہیں ہوں گے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے عندیہ دیا گیا ہے کہ عارف علوی کی تقریب حلف برداری میں حزب اختلاف کے رہنمائوں کو بھی مدعو کیا جائے گا۔ یہ تقریب 9 ستمبر کو متوقع ہے۔
منگل کے روز احتساب عدالت کے احاطے میں نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان ڈیڑھ گھنٹے سے زائد ملاقات ہوئی۔ لیگی ذرائع کے مطابق اس موقع پر ہی پارٹی صدر اور تاحیات پارٹی قائد کے درمیان آئندہ کے لائحہ عمل پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ اس بات چیت کے موقع پر موجود ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ نواز شریف نے شہباز شریف کو کہا کہ الیکشن کے عمل اور پنجاب حکومت بنانے کے معاملے سے لے کر آج تک انہوں نے جو تجزیہ یا پیشن گوئی کی وہ درست ثابت ہوئی۔ اور یہ کہ وہ بہت پہلے سے کہتے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی ساتھ نہیں چلے گی۔ اس تمہید کے بعد نواز شریف کا کہنا تھا کہ آئندہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کسی دوسری پارٹی پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی پالیسی پر عمل کرے گی، چاہے اس میں اپوزیشن کی کوئی پارٹی اس کا ساتھ دے یا نہ دے۔ ساتھ ہی پارٹی کے تاحیات قائد نے شہباز شریف کو یہ ہدایت بھی کی کہ آئندہ کسی بھی نوعیت کی سرکاری تقریب میں وہ شریک نہیں ہوں گے۔ صدر مملکت کی تقریب حلف برداری سمیت حکومت کا کوئی آفیشل پروگرام اٹینڈ نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ سرکاری پروگرام کسی غیر ملکی مہمان کے اعزاز میں ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم اگر کوئی غیر ملکی مہمان، بطور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ملاقات کرنے کا خواہاں ہو تو شہباز شریف اس مہمان سے اپنے چیمبر یا کسی پرائیویٹ مقام پر ملاقات کر سکتے ہیں۔ شہباز شریف نے ان تمام ہدایت پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ذرائع کے بقول نواز شریف کی جانب سے پارٹی صدر سمیت تمام رہنمائوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے الیکشن چوری کا جو بیانیہ اختیار کیا ہے، اسے اب پروف بھی کرنا ہے۔ جبکہ سرکاری تقریبات میں شرکت سے یہ تاثر پیدا ہوگا کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے وزیر اعظم اور صدر مملکت کو تسلیم کر لیا ہے۔ لیگی ذرائع کے مطابق حال ہی میں سینیٹ میں مشاہداللہ خان کی جانب سے کی جانے والی سخت ترین تقریر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی اسی نئی حکمت عملی کے سلسلے کی کڑی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مشاہداللہ خان نے اس قدر سخت الفاظ استعمال کئے کہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے یہ کہہ کر انہیں روکنے کی کوشش کی کہ غیر پارلیمانی الفاظ استعمال نہ کریں۔ لیگی ذرائع کے بقول مشاہداللہ خان کی اس تقریر کے تمام نوٹس نواز شریف نے لکھ کر دیئے تھے۔ یوں مشاہداللہ کی تقریر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی آفیشل لینگویج تھی۔ ذرائع کے مطابق نون لیگ کی نئی پارٹی پالیسی کا اظہار اب گاہے بگاہے دونوں ایوانوں میں دکھائی دے گا۔ جبکہ سڑکوں پر یہ سلسلہ محرم کے بعد شروع کیا جائے گا۔ لیگی ذرائع نے بتایا کہ جاوید ہاشمی کا اصرار تھا کہ حکومت کے خلاف تحریک محرم سے پہلے 9 ستمبر سے ہی شروع کر دی جائے۔ تاہم نواز شریف سمیت پارٹی کے دیگر سینئر رہنمائوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ ان رہنمائوں کا مؤقف تھا کہ محرم جیسے مہینے میں تحریک چلانے سے غلط پیغام جائے گا۔ لہٰذا احترام محرم میں تحریک کا آغاز بعد میں کیا جائے۔ تاہم اس کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں پارٹی کے سینئر رہنمائوں سے لے کر ضلعی عہدیداران تک کو ذہنی طور پر تیار رہنے کی ہدایت کر دی گئی۔
ادھر صدارتی انتخاب کے موقع پر پنجاب اسمبلی میں نون لیگ کے مسترد شدہ 16 ووٹوں کے معاملے پر پارٹی کے ایک صوبائی رہنما کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت کو بخوبی علم ہے کہ ان ارکان نے جان بوجھ کر اپنے ووٹ مسترد کرائے۔ اگرچہ ووٹنگ خفیہ رائے شماری سے ہوئی۔ تاہم پارٹی قیادت ان ارکان سے واقف ہے۔ یہی وہ لوگ تھے، جنہوں نے صوبائی اسمبلی کے انتخاب کے موقع پر چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ دیا تھا۔ صوبائی رہنما نے اعتراف کیا کہ یہ 16 ارکان اس مجوزہ فارورڈ بلاک کا حصہ ہو سکتے ہیں، جس کو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم پارٹی قیادت ارکان کی شناخت ہو جانے کے باوجود فی الحال ان کے خلاف کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتی۔ لیگی ذرائع نے اس کا سبب چوہدری سرور کی خالی کردہ سینیٹ کی سیٹ پر ہونے والا الیکشن بتایا، جو صوبائی و قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے بعد متوقع ہے۔ ذرائع کے بقول اس سینیٹ الیکشن کے لیے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو ان ارکان کے ووٹوں کی ضرورت ہے۔ لہٰذا کسی قسم کی کارروائی کر کے پارٹی قیادت تعلقات اس نہج پر نہیں لے جانا چاہتی کہ یہ ارکان کھل کر سامنے آجائیں۔ پھر یہ کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے موقع پر ان ارکان نے حمزہ شہباز کو ہی ووٹ دیا تھا۔ لہٰذا یہ گنجائش باقی ہے کہ انہیں فارورڈ بلاک جوائن نہ کرنے پر قائل کر لیا جائے۔ واضح رہے کہ چوہدری سرور نے گورنر پنجاب کا حلف اٹھانے سے پہلے اپنی سینیٹ کی سیٹ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ چوہدری سرور کا یہ استعفیٰ چیئرمین سینیٹ کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا۔ اور پھر الیکشن کمیشن، الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔
یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی میں اسپیکر کے انتخاب کے بعد صدارتی انتخاب کے موقع پر بھی نون لیگ کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا، جب اس کے 16 ارکان اسمبلی نے بالواسطہ طور پر تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار کو فائدہ پہنچایا۔ صدارتی انتخاب کے دوران پنجاب اسمبلی میں 18 ووٹ مسترد ہوئے، جس میں 16 مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے تھے۔ اس حوالے سے میڈیا میں مختلف خبریں زیرگردش ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ایم پی ایز نے جان بوجھ کر اپنے ووٹ مسترد کرائے، تاکہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے حمایت یافتہ صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمن کے ووٹوں کی تعداد کم ہو اور تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو فائدہ پہنچے۔ لیگی ذرائع نے ان خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ صدارتی الیکشن کی رات جب تحریک انصاف کو یہ علم ہوا کہ مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ ’’ن‘‘ میں حتمی کمٹمنٹ ہو گئی ہے اور یہ کہ جمعیت علمائے اسلام کے امیر، اعتزاز احسن کے حق میں نہیں بیٹھیں گے، تو فوری طور پر پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے پرویز الٰہی کو کہا گیا کہ جن نون لیگی ارکان نے اسپیکر کے انتخاب کے موقع پر انہیں ووٹ ڈالے تھے، ان سے رابطہ کیا جائے۔ لیگی ذرائع کے بقول بیک گرائونڈ میں ہونے والی اس تمام پیش رفت سے پارٹی آگاہ تھی۔ پس پردہ رابطوں کے بعد ان لیگی ایم پی ایز نے پلان کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو تو ووٹ نہیں ڈالے کہ اس پر بعد میں اپوزیشن کے شور شرابے کا خدشہ تھا اور پھر یہ کہ اپوزیشن تقسیم ہونے کے سبب تحریک انصاف کا امیدوار ویسے ہی جیت رہا تھا۔ لہٰذا ا ارکان سے ووٹ ضائع کرا کے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے امیدوار کو پڑنے والے ووٹوں کو کم کرایا گیا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment